ڈاکٹرسید اسلام الدین مجاہد، اڈوکیٹ
جماعت اسلامی ہندکے ارکان کا کل ہند اجتماع ہندوستان کے تاریخی شہر حیدرآباد میں 15 تا 17نومبر 2024(جمعہ تا اتوار) منعقد ہونے جا رہا ہے۔اس سہ روزہ اجتماع میں جماعت کے اٹھارہ تا بیس ہزار ارکان کی شرکت متوقع ہے۔ اس اجتماع کا مرکزی موضوع ” عدل و قسط ” ہے۔یہ اجتماع شہر کے مضافات میں واقع وادیِ ھدیٰ کی 35ایکڑ وسیع و عریض اراضی پر منعقد ہوگا۔
اسی وادی میں فروری 1981میں جماعت اسلامی ہند کا چھٹا کل ہند اجتماع عام منعقد ہوا تھا۔ یہ اجتماع 65 ایکڑ زمین کو ہموار کرکے منعقد کیا گیا تھا۔ناظم اجتماع مولانا عبد العزیزؒ کی قیادت میں جماعت کے کارکنوں نے پہاڑوں کو توڑ کر ایک بستی بسائی تھی۔ یہ اجتماع پندرہویں صدی ہجری کے آغاز پر ہوا تھا۔
اس اجتماع میں ایک اندازہ کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی، جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس اجتماع میں راقم السطور نے بھی شرکت کی جبکہ وہ انوار العلوم ایوننگ کالج میں بی اے کا طالب علم تھا۔ اس میں بیرون ملک سے آنے والے مندوبین اور مہمان بھی شامل تھے۔
ان میں قابل ذکر مصر سے اخوان المسلمون کی قائد زینب الغزالی اورایران کے موجودہ روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای اوردیگر عرب مہمان تھے۔ خامنہ ای اُ س وقت ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر تھے۔ وہ اس اجتماع میں ایران کے رہبر انقلاب آیت اللہ خمینی کے نمائندہ کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ جماعت کا یہ کل ہند اجتماع ایک یادگار اجتماع ثابت ہوا۔
جس کی یادیں 43 سال گزرجانے کے بعد بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔اس کے بعد سے اب تک پھر کل ہند اجتماع عام منعقد نہیں ہو سکا۔ البتہ اب تک جماعت کے ارکان کے چار کل ہند اجتماعات ہوچکے ہیں۔ پہلا کل ہند اجتماع وادیِ ھدیٰ میں 1997 میں ہوا۔ دوسراکل ہندااجتماع دہلی میں 2002میں ہوا۔ تیسرا کل ہند اجتماع 2010میں پھر دہلی میں ہوا۔
چوتھا کل ہند اجتماع ارکان 2015میں حیدرآباد میں ہوا۔ اور اب پھر پانچواں کل ہنداجتماع ارکان 2024میں حیدرآباد میں ہو رہا ہے۔ اس طرح پانچ اجتماعات کے من جملہ تین اجتماعات کی میزبانی کا شرف حیدرآبادیوں کو حاصل ہوا۔ علاوہ ازیں ڈسمبر 1952اور نومبر 1967میں حیدرآباد میں جماعت کے کل ہند اجتماعات عام منعقد ہوئے۔
جماعت اسلامی میں اجتماعات کی روایت بہت قدیم ہے۔ مقامی سطح سے لے کرجماعت ضلعی، ریاستی اور کل ہند سطح پر اجتماعات منعقد کرتی رہی۔ جماعت کے قیام کے فوری بعد پہلے اجتماع منعقدہ اگست 1941میں یہ بات طے ہوگئی تھی کہ: ” جماعت کے ارکان کا اجتماع ہر سال کیا جائے۔“ ان اجتماعات کا اہم مقصد اسلام کی دعوت کو دوسروں تک پہنچانا ہے۔
یہ اجتماعات دعوت دین کو عام کرنے کا اہم وسیلہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے ذریعہ اسلام سے متعلق غلط فہمیوں اور شکوک و شبہات کو دور کرنے کی موثر کوشش کی گئی۔جماعت کے عام اجتماعات میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کو بھی دعوت دی جا تی رہی۔
ملک کی تقسیم سے پہلے جماعت اسلامی کے ایک اجتماع میں جو 1947 میں پٹنہ (بہار)میں بڑے ہنگامہ خیز ماحول میں منعقد ہوا تھا، اس میں گاندھی جی بھی شریک ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کے اجتماع میں شرکت کے بعد ان کے جو تاثرات رہے وہ ملاحظہ فرمایئے۔
"کل میں جماعت اسلامی کے جلسہ میں شریک ہوا۔ یہ فقیروں کا اجتماع تھا۔ ان فقیروں کا نہیں جو بھیک مانگتے ہیں۔ یہ ان فقیروں کا اجتماع تھا جو نیکی پھیلاتے ہیں، انسانیت کی خدمت کرتے ہیں، من و تو کے امتیاز کو مٹاتے ہیں، لوگوں سے کہتے ہیں کہ جب تم خدا کے بندے ہو تو خدا کے فرماں برادر بھی بنو۔ ان لوگوں کے اجتماع میں شریک ہونے پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے، خوشی ہے۔ یہ لوگ اگر مجھے پھر بلائیں گے تو میں پیدل چل کر ان کے اجتماع میں جاؤں گا۔“ (The collected Works of Mahatama Gandhi, Vol.94: Feb 1947, pp.400-401)
جماعت کے اجتماعات اعلیٰ مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے منعقد کئے جاتے ہیں۔جماعت اسلامی ایک فکری اورنظریاتی تحریک ہے۔ اس کا ایک خاص نصب العین ہے۔ ان اجتماعات کے ذریعہ وابستگان ِ تحریک میں اپنے مقصد اور نصب العین کے تئیں یکسو ہونے کا داعیہ پیدا کیاجاتا ہے۔
کسی بھی فکر اور نظریہ کی یاد دہانی نہ ہوتی رہے تو وہ نظریہ ذہنوں سے محو ہوجاتا ہے اور اس تحریک سے وابستہ افراد تذبذب اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہوکر تحریک سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ اس لئے فکری اور نظریاتی تحریکیں ایسے اجتماعات کو منعقد کرتی ہیں۔
جماعت اسلامی کے اجتماعات دیگر جماعتوں کے جلسوں سے کس طرح مختلف ہوتے ہیں۔ اسکی وضاحت بانیِ جماعت اسلامی، مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے غیر منقسم ہندوستان کے ارکان کے اجتماع منعقدہ دارالاسلام پٹھان کوٹ (26,27,1944 مارچ) میں اس طرح کی ہے: ” ہمارے اجتماع کی نوعیت "جلسوں "سے بالکل مختلف ہے۔
جلسوں میں زیادہ تر تقریریں ہوتی ہیں، جلوس نکلتے ہیں، نعرے بلند کئے جاتے ہیں، لیکن اس نوعیت کی کوئی چیز یہاں نہیں ہوئی اور نہ کبھی ہوگی۔ ان اجتماعات کا مقصد ہنگامہ آرائی نہیں ہے اور نہ توجہات ِ عوام کو اپنی طرف کھینچنا ہے”مولانا نے اجتماع کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ” ہمارے اجتماعات کی غرض صرف یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے واقف ہوں، باہم قریب تر آئیں، اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو سمجھیں اور انہیں دور کرنے کی فکر کریں اور باہمی مشوروں سے اپنے کام کو آگے بڑھانے کی تدبیریں سوچیں۔
غرض ہمارے یہ اجتماعات اپنے اندر عملی روح رکھتے ہیں "۔ (حوالہ: روداد جماعت اسلامی دوم) جماعت اسلامی ہند اپنی اسی دیرینہ روایت پر اب بھی قائم ہے۔جماعت کے اجتماعات میں بے ہنگم بھیڑ کو جمع کرلینا کبھی بھی جماعت کا مقصد نہیں رہا۔جماعت اپنے اجتماعات کے ذریعہ ایک ایسی منظم فوج تیار کرنا چاہتی ہے جو دین حق کی اشاعت و ترویج کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے اور اقامت دین کی منزل کو پانے کے لئے تا حیات پیہم جدوجہد کواپنا مشن بنالے۔
پانچویں کل ہند اجتماع ارکان کی نمایاں خصوصیات: حیدرآباد میں منعقد ہونے والا یہ پانچواں کل ہند اجتماع ارکان مختلف حیثیوں سے منفرد نوعیت کا ہے۔ اس اجتماع میں شریک ہونے والے شرکاء کے لئے بہترین انتظامات کئے گئے ہیں تاکہ شرکاء کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔
ادراک۔تحریک شو کیس (IDRAAK- TAHREEK SHOWCASE) اس اجتماع کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہندوستان میں دعوت دین، اسلامی معاشرے کی تعمیر اور عدل و قسط کے قیام کی عظیم الشان جدوجہد پر مبنی منتخب کاموں کی نمائش منظم کی گئی۔ اس IDRAAK-EXPO کو چھ مختلف نام دئے گئے۔ 1۔ تکبیر 2۔تطہیر 3۔تفکیر 4۔تدبیر 5۔تنویر اور 6۔ تعمیل
اس ایکسپو کو عام لوگ 14نومبرسے 18 نومبر تک مختلف اوقات میں مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ اس کو دیکھنے سے اندازہ ہوگا کہ جماعت مختلف شعبوں میں کس انداز سے کام کر رہی ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیے تاکہ جماعت کے کاموں سے واقفیت ہو سکے۔
کیڈر کنونشن (CADER CONVENTION-2024) جماعت اسلامی ہند کا یہ اجتماع خاص طور پر ارکانِ جماعت کے لئے ہو رہا ہے۔ اس موقع پر وابستگان ِ جماعت کے لئے بھی16نومبر ہفتہ کی شام اجتماع کے مقام پرہی ایک عام پروگرام کیڈر کنونشن کے نام پررکھا گیا تا کہ عام لوگ بھی جماعت کے اجتماع سے مستفید ہوسکیں۔
اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ جماعت اسلامی ہند کا یہ کل ہند اجتماع ارکان اپنے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں کا میابی کا ذریعہ بنے گا او اس کے دور رس نتائج بھی سامنے آئیں گے۔ اس اجتماع کے بعد ارکان جماعت اور اس کے قائدین مزید احساس ذ مہ داری کے ساتھ اس ملک میں نظام عدل و قسط کے قیام کے لئے یکسو ہوجائیں گے تا کہ اس ملک میں ظلم وناانصافی، تعصب و نفرت کا ماحول ختم ہو سکے اور ہرفرد اطمینان و سکون کی زندگی گزار سکے۔
جماعت اسلامی ہند کے فکری رہنما مولانا سید احمد عروج قادریؒ نے 1974 کے دہلی کے اجتماع عام کے موقع پر جماعت کے ترجمان ماہ نامہ "زندگی "کے پیش لفظ میں اجتماع کی اہمیت اور معنوعیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:”عام طور سے کسی جماعت یا تنظیم کے بڑے اجتماعات کی کام یابی یا ناکامیابی کے لئے شرکاء کی تعداد کو معیار بنایا جا تا ہے۔
اگر کسی اجتماع میں زیادہ لوگ شریک ہوئے تو اس کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے اور اگر کم لوگ شریک ہوئے تو اسے ناکام کہا جاتا ہے۔ یہ حقیقی معیار نہیں ہے۔کسی نظریاتی تحریک و تنظیم کے ذمہ داروں کو گہرائی اور بصیرت کے ساتھ یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ان کے اجتماعات میں جو لوگ شریک ہوئے وہ کن محرکات کے تحت شریک ہوئے ہیں۔
اگر گہرائی کے ساتھ یہ جائزہ نہ لیاجائے تو اپنی قوت اور اپنے اثرات کے بارے میں بڑی غلط فہمی ہو سکتی ہے "مولانا نے یہ بات جماعت کے عام اجتماعات کے ضمن میں کہی ہے، لیکن ارکان جماعت کے اجتماعات کے لئے بھی یہ پہلواہمیت رکھتا ہے۔
اور خاس طور پر جو لوگ جماعت میں شامل ہورہے ہیں وہ کن محرکات کے پیش نظر جماعت کے رکن بن رہے ہیں اس پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تا کہ جماعت کی فکری اساس محفوظ رہ سکے اور اقامت دین کا نظریہ نظروں سے اوجھل نہ ہو!۔