امراوتی/ چیمور (مہاراشٹرا): کانگریس قائد راہول گاندھی نے ہفتہ کے دن کہا کہ ان کی پارٹی‘ دستور کو ملک کا ڈی این اے سمجھتی ہے لیکن برسراقتدار بی جے پی اور آر ایس ایس کے لئے یہ ایک ”خالی کتاب“ ہے۔ مشرقی مہاراشٹرا کے امراوتی میں انتخابی ریالی سے خطاب میں قائد اپوزیشن لوک سبھا نے کہا کہ دستور میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ ارکان ِ اسمبلی کی خریداری کے ذریعہ ریاستی حکومتیں گرائی جاسکتی ہیں جیسا کہ مہاراشٹرا میں ہوا۔
دستور میں ملک کے بڑے تاجروں کا 16 لاکھ کروڑ روپے کا قر ض معاف کرنا بھی کہیں نہیں لکھا ہے۔ کانگریس‘ دستور کو ملک کا ڈی این اے سمجھتی ہے جبکہ برسراقتدار بی جے پی اور آر ایس ایس کے نزدیک یہ خالی کتاب ہے۔ راہول گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے اس دعویٰ کے جواب میں یہ بات کہی کہ کانگریس قائد اپنی انتخابی ریالیوں میں دستور کی جو کاپی دکھارہے ہیں اس کے صفحات خالی ہیں۔
سابق صدر کانگریس نے کہا کہ میری بہن نے مجھے بتایا کہ وزیراعظم مودی اِن دنوں وہی مسئلہ اٹھارہے ہیں جو میں اٹھارہا ہوں۔ میں نے لوک سبھا میں ان سے کہا تھا کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کرائی جانی چاہئے اور ریزرویشن کی 50 فیصد کی بالائی حد ہٹنی چاہئے۔
اب وزیراعظم اپنی انتخابی ریالی میں کہہ رہے ہیں کہ راہول گاندھی ریزرویشن کے خلاف ہیں۔ راہول گاندھی نے کہا کہ سابق امریکی صدرکی طرح مودی کو بھولنے کی بیماری ہوچکی ہے۔ کل کو وزیراعظم‘ راہول گاندھی کو ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مخالف بتادیں گے۔
کانگریس قائد نے کہا کہ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کسانوں اور چھوٹے کاروباریوں کو ختم کرنے کے ہتھیار ثابت ہوئے۔ ملک میں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے سماج میں نفرت پھیل رہی ہے۔ راہول گاندھی نے کہا کہ میں مودی جی سے کہنا چاہتا ہوں کہ صنعتکاروں نے آپ کو وزیراعظم نہیں چنا بلکہ عوام نے آپ کو منتخب کیا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ صنعتکاروں نے آپ کی مارکٹنگ کی۔ ضلع چندرپور کے چیمور میں دوسری ریالی سے خطاب میں راہول گاندھی نے کہا کہ وہ انتخابی جلسوں میں دستور کی کاپی عوام کو یہ یاددلانے کے لئے لہراتے ہیں کہ ہمارے قومی ہیروز نے ملک کی تعمیر کے لئے کیا جدوجہد کی تھی اور کونسی قربانیاں دی تھیں۔
بی جے پی‘ قومی رہنماؤں کی بے عزتی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے برسراقتدار رہنے تک نوکریاں نکلنے والی نہیں۔ دلت‘ آدی واسی اور پسماندہ طبقات ملک کی آبادی کا 90 فیصد ہیں لیکن فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی حصہ داری 100 روپے کے بجٹ میں 6روپے 10 پیسے کے برابر ہے۔