دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جس پر عالمی فورمز پر بار بار بات چیت کی جاتی ہے۔ ان میں سب سے اہم پلیٹ فارم COP (فریقوں کی کانفرنس) ہے، جس کا 29 واں اجلاس اس وقت آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں جاری ہے۔ اس عالمی کانفرنس میں 200 ممالک کے نمائندے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے مختلف حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات صرف ترقی یافتہ ممالک تک محدود نہیں ہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک،خصوصاً عالمی شہروںپر بھی گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دہلی،جو دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ آباد شہروں میں سے ایک ہے،ان اثرات کو شدید طریقے سے محسوس کر رہی ہے۔
دہلی این سی آر میں موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر سب سے زیادہ شدت سے دکھائی دے رہا ہے،جس کا واضح مظاہرہ اس وقت ہو رہا ہے جب شہر میں فضائی آلودگی کی سطح انتہائی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں دہلی کی ہوا کا معیار (AQI) 400 سے اوپر رہا،جو ’شدید‘ آلودگی کی سطح پر آتا ہے۔ اس آلودگی کی وجہ سے دہلی اور اس کے اطراف کے علاقوں میں رہائش پذیر افراد کو صحت کے سنگین مسائل جیسے سانس،دل اور جگر کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اس تشویش کی حالت کے پیش نظر دہلی حکومت نے گریڈڈ رسپانس ایکشن پلان (GRAP) کے تحت متعدد پابندیاں عائد کی ہیں،جن میں اسکولوں کی تعطیلات، مخصوص گاڑیوں کی ممانعت اور سڑکوں کی صفائی کے اقدامات شامل ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ اقدامات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو روکنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟
دہلی کی فضائی آلودگی کا سبب صرف مقامی عوامل نہیں ہیں بلکہ یہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ بھی ہے۔ بڑھتی ہوئی گرمی،سردیوں میں دھند کا اضافہ اور ایئر کنڈیشنرز کے استعمال میں بے تحاشہ اضافہ،یہ سب موسمیاتی بحران کی علامات ہیں۔ دہلی کی آلودگی کا بڑا حصہ پی ایم 2.5 (باریک ذرات) کی موجودگی سے آتا ہے،جو ہوا میں معلق رہ کر پھیپھڑوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق دہلی میں پی ایم 2.5 کا اوسط ارتکاز ڈبلیو ایچ او کے معیارات سے 15 گنا زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دہلی کے شہریوں کی صحت ہر روز سنگین خطرے میں ہے اور یہی وہ مسئلہ ہے جس پر عالمی سطح پر توجہ دی جا رہی ہے۔
دہلی اور اس کے نواحی علاقوں میں سردیوں کے دوران فضائی آلودگی کی سطح میں مزید اضافہ ہوتا ہے،جو نہ صرف عوام کی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک سنگین نتیجہ بھی بن چکا ہے۔ جب دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کیلئے عالمی معاہدے کیے جا رہے ہیں،دہلی جیسے بڑے شہر ان معاہدوں کے اثرات سے بھی متاثر ہیں۔ یہاں کی آلودگی کی سطح اتنی زیادہ ہے کہ خلا سے بھی شہر کی دھند دیکھی جا سکتی ہے اور ناسا نے اپنی سیٹلائٹ تصاویر میں شمالی ہندوستان سے لے کر پاکستان تک گھنے اسموگ کا منظر دکھایا ہے۔
دہلی کی مثال صرف ایک شہر کی حالت نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلے کی نمائندگی کرتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت کا سامنا صرف ترقی یافتہ ممالک کو نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک کو بھی ہے۔ ترقی پذیر ممالک جیسے ہندوستان میں اقتصادی ترقی کی بھاری قیمت ادا کی جا رہی ہے،جہاں صنعتی ترقی اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجہ سے موسمیاتی بحران مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس وقت ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک عالمی فورمز پر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور آلودگی میں کمی لانے کیلئے عملی اقدامات کریں۔
COP-29میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مالی مدد فراہم کی جائے،تاکہ وہ اپنی معیشت کو ترقی دیتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ کو بھی یقینی بنا سکیں۔ ہندوستان نے بھی اپنے موقف میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے گلوبل وارمنگ کی روک تھام میں زیادہ حصہ داری ہونی چاہیے۔ تاہم،جب تک عالمی سطح پر بڑے اور طاقتور ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے،تب تک دہلی جیسے شہروں کی صورتحال میں بہتری کی امید کم ہے۔
دہلی میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی شدت عالمی سطح پر ہونے والی کوششوں کی ناکامی کی گواہی دیتی ہے۔ COP-29 جیسے عالمی اجلاسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے مسائل پر بحث کی جا رہی ہے،لیکن دہلی جیسے شہر میں عملی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ دہلی میں فضائی آلودگی کی موجودہ صورتحال ایک سنگین انتباہ ہے کہ موسمیاتی بحران صرف عالمی سطح پر نہیں بلکہ مقامی سطح پر بھی فوری توجہ کا طالب ہے۔ جب تک عالمی طاقتیں اور ترقی پذیر ممالک اپنے اپنے حصے کا کردار ادا نہیں کریں گے،دہلی جیسے شہر کا موسمیاتی بحران مزید بڑھتا جائے گااور اس کا اثر عالمی سطح پر محسوس کیا جائے گا۔
[email protected]
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS