November 16, 2024
طارق شبنم
فاطمہ نماز فجر سے فارغ ہو کر تلاوت کلام پا ک میں مصروف تھی کہ دروازے پر دستک سن کر وہ گھبراسی گئی ۔
’’ یا اللہ ۔۔۔۔۔۔ خیر کرنا۔۔۔۔۔۔ اتنی صبح صبح کون ہو سکتا ہے ؟‘‘
خود کلامی کرتے ہوئے وہ اٹھی اور دروازہ کھولا ،باہر محمد جلیل کا بیٹا شارک کھڑا تھا ۔
’’ فاطمہ آپا ۔۔۔۔۔۔ پا پا کی حالت بہت خراب ہے اور مرنے سے پہلے وہ ایک بار آپ سے ملنا چاہتا ہے‘‘ ۔
اس نے بغیر کسی تمہید کے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’مریں اس کے دشمن ،تم کیوں اتنے گھبرائے ہوئے ہو ،اندر آکر چائے پی لو پھر جائیں گے‘‘۔
’’نہیں آپا ۔۔۔۔۔۔ اتنا وقت نہیں ہے ۔ آپ جلدی چلیں تاکہ اس کی آخری تمنا پوری ہو جائے ‘‘
کہتے ہوئے شارک کی آنکھیں نم ہوئیں۔
’’ اچھا بیٹا ۔۔۔۔۔۔ تم دو منٹ رکو۔۔۔۔۔۔‘‘۔
کہہ کر وہ اندر گئی ، پیرہن زیب تن کیا اور گھر والوں سے کہہ کر پریشانی کی حالت میں شارک کے ساتھ چلی گئی ۔وہ جلیل کی بے حد احسان مند تھی، یوں سمجھو کہ جلیل نے اسے نئی زندگی دی تھی ۔جلیل اگر چہ کچھ عرصے سے بیمار تھا لیکن فاطمہ کی دانست میں اس کی حالت اتنی خراب بھی نہیں تھی کہ و ہ اتنی جلدی انتقال کر جائے کیوں کہ ایک دن قبل ہی فاطمہ اس کی خبر گیری کے لئے گئی تھی اور اس کی حالت مستحکم تھی ۔
’’ پا پا ۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھو فاطمہ آپا آگئی ہیں ۔۔۔۔۔۔ آنکھیں کھولو پاپا ۔۔۔۔۔۔ آپ اس سے ملنا چاہتے تھے نا۔۔۔۔۔۔؟‘‘
وہاں پہنچتے ہی شارک نے جلیل کے سرہانے بیٹھ کر کئی بار فاطمہ کی آمد کے بارے میں بتا کر اسے اٹھانا چاہا لیکن وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں نہ جانے خود سے کیا بڑ بڑا رہا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر فاطمہ کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہوگئیں اور وہ ماضی کی یادوں میں کھو کر دل ہی دل میں جلیل کے احسانوں کو یاد کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پندرہ سال پہلے قسمت نے فاطمہ کو ایک سخت آزمائیش میں مبتلا کردیاتھا۔ اس کا جوان بیٹاکالج سے گھر لوٹتے ہوئے نا مساعد حالات کا شکار ہوکر اچانک زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔جوان بیٹے کی اچانک اورالمناک موت سے فاطمہ کی دنیا ہی لُٹ گئی ۔بیٹے کی جدائی کے غم سے وہ سہم کر رہ گئی ، اس نے کھانا پینا،بولنا ،چلنا پھرنا سب چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کے آنسوں بھی خشک ہوگئے اور وہ کمرے کی چار دیواری کے اندر بُت بن کے رہ گئی ۔کچھ دنوں تک رشتہ دار اور ہمسائے ان کے دکھ میں شریک رہتے ہوئے ان کی ڈھارس بندھاتے رہے لیکن آخر سب اپنے اپنے مسائل میںاُلجھ کے رہ گئے لیکن خلوص اور انسان دوستی کی شبنم سے لبریزجلیل ،جو ان کا ہمسایہ تھا اور کافی عرصہ تک ان کا گھریلو ملازم رہا تھا اور فاطمہ نے اسے اپنے بھائی کی طرح مانا تھا، فاطمہ کی اس حالت پر سخت فکر مند اور پریشان ہو گیا ۔وہ کسی بھی طرح فاطمہ کو اس غم سے نکالنا چاہتا تھا اور ہر شام ان کے گھر آکر اس کی ڈھارس بندھاتے ہوئے مختلف طریقوں سے اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتا تھا لیکن فاطمہ کی حالت دن بہ دن خراب ہی ہوتی جا رہی تھی ۔ گھر والوں نے بڑے بڑے ماہرین نفسیات سے فاطمہ کا علاج کروایا لیکن اس کی حالت میں رتی بھر بھی فرق نہیں آیا ۔فاطمہ کی اس حالت سے بے چین جلیل نے اس کے زخموں پر مرہم کا پھاہا رکھنے کے لئے طرح طرح کی ترکیبیں آزمائیں لیکن اس کی کوئی بھی ترکیب کام نہیں آئی ۔
’’ فاطمہ ۔۔۔۔۔۔ میری بہن ،اب یہ رونا دھونا بند کرو اور خوش ہو جاو‘‘ ۔
ایک شام جلیل قسم بہ قسم کے میوے لے کر کافی خوش و خرم فاطمہ کے گھر میں وارد ہوااور ہنستے ہنستے پُر اعتماد لہجے میں فاطمہ سے کہا ۔
’’کیسے خوش ہوجا ں میرے بھائی ۔۔۔۔۔۔ میرے دل کا قرار تو ۔۔۔۔۔‘‘۔
’’آج کے بعد تیرے سارے دکھ اور پریشانیاں رخصت‘‘ ۔
جلیل نے ایک ادا سے کہا۔
’’وہ کیسے۔۔۔۔۔۔ ؟‘‘
فاطمہ ،جس کی آنکھوں میں درد کا بیکراں سا گر پنہاں تھا اور چہرے سے کرب و اضطراب پسینے کی قطروں کی طرح ٹپک رہا تھا،نے حیران ہو کر رندھے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔
’’بتائوںگا ،لیکن کسی سے کہنا مت ‘‘۔
کہتے ہوئے جلیل نے فاطمہ کے نزدیک بیٹھ کر رازداری کے انداز میں اسے کچھ کہااور وہ اور فاطمہ کچھ دیر باتیں کرتے رہے ،جس کے ساتھ ہی کئی مہینوں بعد فاطمہ کے غمزدہ چہرے پر خوشی کی ہلکی سی پرچھائیاں نمودار ہونے لگیں اور اس نے افراد خانہ کے ساتھ کھانا بھی کھایا ،کچھ دیر ان کے ساتھ ادھر اُدھر کی باتیں بھی کیں اور جلدی سوگئی۔اس دن کے بعد ہی اس کی حالت دھیرے دھیرے سدھرنے لگی اور وہ معمول کی زندگی کی طرف واپس لوٹنے لگی ۔فاطمہ کے افراد خانہ اس بات پر حیران تھے کہ آخر جلیل نے فاطمہ سے ایسا کیا کہا کہ کئی مہینوں کے بعد اس کی حالت اچانک سدھرنے لگی ۔کئی بار اس کے شوہر اور بھائی بہنوں نے اُس نے اس بارے میںپوچھ کر جاننا بھی چاہا لیکن اس کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ یہ ایک راز ہے جو میں کسی سے نہیں کہہ سکتی ۔اس دوران جلیل فاطمہ کے گھر آکر اس سے ملتا تھا اور اس کی حالت میں سدھار دیکھ کر کافی خوش ہوتا تھا ۔
وقت کا پرندہ پر لگا کر جس تیزی سے اپنا سفر طئے کرتا رہا اسی تیزی سے فاطمہ کے زخموں پر بھی مرہم کا پھاہا لگتا گیا، یہاں تک کہ وہ بالکل ٹھیک ہوگئی اور اس کے اندر جینے کی نئی امیدیں جاگ اٹھی ۔
’’کوئی فاطمہ بہن کو بلائو ۔۔۔۔۔‘‘
فاطمہ دل ہی دل میں ماضی کی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھی کہ دفعتاًجلیل نیم بے ہوشی کی حالت میں بڑ بڑایا ۔
’’میں یہاں ہوں میرے بھائی ،کہومیں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں ؟‘‘
فاطمہ کی آواز سن کر جلیل نے دھیرے سے آنکھیں کھولیںاور ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد مریل سے لہجے میں فاطمہ سے مخاطب ہوا ۔
’’ بہن ۔۔۔۔۔۔ میرے دل پر ایک بڑا بوجھ ہے ،مرنے سے پہلے میں اس بوجھ کو اتارنا چاہتا ہوں‘‘ ۔
اس نے اشارے سے کمرے میں موجود دوسرے لوگوں کو باہر جانے کے لئے کہا اور فاطمہ سے گویا ہوا ۔
’’فاطمہ بہن ۔۔۔۔۔۔ علی با با کے وہ مٹی کے دانے اور تعو یز ۔۔۔۔۔۔‘‘
کہتے ہوئے اس کا دم گھٹ کر کانٹے کی طرح گلے میں پھنس گیاوہ پھر سے بے ہوش ہوگیا اور فاطمہ کے ذہن میں پندرہ سال پہلے جلیل کے کہے ہوئے الفاظ گونجنے لگے اور آنکھوں میں آنسئوں کے ڈورے تیرنے لگے ۔۔۔۔۔۔
’’ دیکھو بہن ۔۔۔۔۔۔ اللہ کچھ بھی کر سکتا ہے جیسے آگ میں انسان جل جاتا ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو آگ نے نہیں جلایا یا انسان اس دنیا میں ماں اور باپ کے واسطے سے پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ کے چاہنے سے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام صرف ماں کے ذریعہ پیدا کئے گئے ۔ اللہ پاک کے اس غیبی نظام پر آپ کو یقین ہے ؟‘‘
’’ہاں ۔۔۔۔۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘ ۔
’’شاباش میری بہن،تو سنو۔۔۔۔۔۔ آج میں ایک بڑے پیر صاحب کے پاس گیا تھا جس نے یہ مٹی کے دانے اوریہ تعویز دئے ہیں۔ آپ اللہ کا نام لے کر یہ تعویز گلے میں باندھنا اور یہ مٹی کے دانے تکئے کے نیچے رکھ کر سوجانا ،پھر خواب میں اپنے بیٹے سے مل کر جتنی باتیں چاہو کر لینا اور ہاں اس بات کا ذکر کبھی کسی سے ہرگز نہیں کرنا‘‘ ۔
اس نے تاکید کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’ کون پیر صاحب ؟اس کا نام کیا ہے ؟‘‘
فاطمہ نے پوچھا تھا۔
’’اس کانام ۔۔۔۔۔ ہاں یاد آیا ۔۔۔۔۔۔علی با با۔۔۔۔۔‘‘
اس نے سر کھجاتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔ ڈوبتے کے لئے تنکے کا سہارا ہی کافی کے مانند فاطمہ نے بڑے یقین کے ساتھ تعویز گلے میں باندھا اور مٹی کے دانے تکئے کے نیچے رکھ کر سوگئی ۔اللہ کا کرنا تھا کہ وہ مٹی اور تعویز فاطمہ کے لئے نعمت غیر مترکبہ ثابت ہوئے۔ اس رات اس نے خواب میں بیٹے کی زیارت کرکے اس سے ڈھیر ساری باتیں کیں اور اس کے دل کو سکون مل گیا۔اس کے بعد جب بھی اس کو بیٹے کی جدائی کا غم ستاتا تھا تو وہ مٹی کے دانے تکیے کے نیچے رکھ کر سوجاتی تھی تو اس کے من کی مراد پوری ہو جاتی تھی ۔فاطمہ کے دل میں علی با با کا بے حدعقیدت و احترام تھا اور اس نے بہت دفعہ جلیل سے اُسے علی بابا کے پاس لے جانے کے لئے کہا تھا لیکن جلیل اس کو ہمیشہ ٹالتا تھا ۔
’’ فاطمہ بہن ۔۔۔۔۔۔فاطمہ بہن ۔۔۔۔۔۔مجھے معاف کرنا ۔۔۔۔۔۔۔اس دن میں نے آپ سے جو کچھ بھی کہا تھا وہ سب جھوٹ تھا۔میں کسی پیر صاحب کے پاس نہیں گیا تھا ،وہ مٹی میں نے آپ کے ہی آنگن سے اٹھائی تھی اور وہ تعویز میں خود ہی کاغذ کے ایک ٹکڑے پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچ کے بنایا تھا اور یہ سب کچھ میں نے صرف اس لئے کیا تھا کہ آپ کی حالت سدھر جائے کیوں کہ آپ کا دکھ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا معاف کرنا بہن ۔۔۔۔۔۔ معاف۔۔۔۔۔۔‘ ‘
دفعتاً جلیل نے بے قراری کی حالت میں دیرے سے آنکھیں کھولیں اور تھکے سے لہجے میں فاطمہ سے مخاطب ہوالیکن بات پوری ہونے سے پہلے ہی پھر بے ہوش ہوگیا اور چند لمحوں بعد ہی اس کی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں ۔
٭٭٭
اجس بانڈی پورہ کشمیر،موبائل نمبر؛9906526432
Read Next
نیوٹن کا قانون
November 9, 2024
افسانہ ڈاکٹر ریاض احمد یہ ایک پرسکون اتوار کی دوپہر تھی اور سم میز پر بیٹھا…