رئیس احمد کمار
جموں و کشمیر میں اپنا الگ آئین مرتب کرنے کی غرض سے پہلی بار آئین ساز اسمبلی کے الیکشن 15اکتوبر 1950 کو کرائے گئے۔ اس الیکشن میں پوری ریاست کل 100سیٹوں پر مشتمل تھی جن میں 25 سیٹیں پی او کے یعنی پاکستان زیر انتظام کشمیر کے لیے مختص رکھیں گئی تھی اور صرف 75سیٹوں پر الیکشن کرائے گئے۔ اس کے ایک سال بعد یعنی 15 اکتوبر 1951 کو پہلی بار جموں و کشمیر اسمبلی کے لیے الیکشن کرائے گئے، جس میں نیشنل کانفرنس تمام سیٹوں پر فاتح نظر آئی۔ 73سیٹوں پر بلامقابلہ فیصلہ ہوا اور یہ تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملا۔ جموں و کشمیر اسمبلی کے لیے دوسری بار 1957 میں الیکشن کرائے گئے، جس میں نیشنل کانفرنس نے نیا کشمیر چناوُ منشور پیش کرتے ہوئے 68 سیٹیں حاصل کی تھیں جبکہ پراجا پریشدھ کو 5سیٹیں اور ہریجن منڈل و آزاد امیدواروں کو ایک ایک سیٹ ملی تھی۔ 1962 میں تیسری بار ریاستی اسمبلی کے الیکشن منعقد کرائے گئے جس میں نیشنل کانفرنس کو 70، پراجا پریشدھ کو 3 اور آزاد امیدواروں کو 2سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ واضح رہے 1965 میں جموں و کشمیر کے آئین میں چھٹی مرتبہ ترمیم لاتے ہوئے وزیراعظم اور صدر ریاست کے عہدے کو ختم کرکے وزیر اعلیٰ اور گورنر کے عہدوں کو منظوری دی گئ اور غلام محمد صادق ریاست کے پہلے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ چوتھی مرتبہ ریاستی اسمبلی کے چناوُ 1967 میں ہوئے، جس میں کانگریس پارٹی کو 61سیٹیں ملیں جبکہ نیشنل کانفرنس کو 8،جن سنگھ کو 3اور تین سیٹوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ اسی طرح پانچویں بار اسمبلی کے چناوُ 1972 میں عمل میں لائے گئے۔ اس چناوُ میں کانگریس کو 58، بھارتیہ جنتا پارٹی کو 3، جماعت اسلامی کو5 اور آزاد امیدواروں کو 9 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ فروری 1975 میں شیخ محمد عبداللہ نے بائیس برس کے ایک لمبے وقفے کے بعد کانگریس پارٹی کے کچھ باغی لیڈروں جن میں مرزا محمد افضل بیگ، ٹھاکر دیوی داس اور سونم ناربو شامل تھے ،کے ساتھ مفاہمت کرکے حکومت سنبھال لی لیکن مارچ 1977 میں عدم اعتماد کی تحریک ہار جانے کی وجہ سے شیخ صاحب کی حکومت پھر سے گر گئی اور ریاست میں صدر راج نافذ ہوا۔ 1977 میں چھٹی بار الیکشن ہوئے، جس میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد نئی حد بندی عمل میں لائے جانے سے ایک سیٹ کا اضافہ کرتے ہوئے76 تک پہنچایا گیا تھا۔ اس چناوُ میں نیشنل کانفرنس کو 47، کانگریس کو 11، جنتا پارٹی کو 13، جماعت اسلامی کو1 اور جن سنگھ کو 4 سیٹوں پر کامیابی ملی۔ شیخ صاحب نے حکومت سنبھالنے کے بعد اسمبلی کی مدت ایک سال بڑھا کر چھ سال کردی۔ ستمبر 1982 کو شیخ صاحب کے انتقال کے بعد حکومت کی باگ دوڑ ان کے چشم چراغ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے سنبھال لی۔ 1983 میں اسمبلی کے ساتویں بار چناوُ ہوئے، جس میں نیشنل کانفرنس کو 46، کانگریس کو 26، پنتھرس پارٹی کو 1، عبدالغنی لون کی پیپلز کانفرنس کو 1 اور آزادامیدوارں کو 2 سیٹوں پر فتح ملی۔ ڈاکٹر فاروق نے حکومت سنبھال لی لیکن ایک ہی سال بعد یعنی جولائی 1984 میں غلام محمد شاہ نے اپنے کئی کانگریسی حمایتیوں کی مدد سے حکومت کی باگ ڈور خود اپنے ہاتھوں میں لی۔ مارچ 1986 میں اسمبلی معطل رکھی گئی اور ریاست میں صدر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ 1987 میں ریاستی اسمبلی کے لیے آٹھویں بار چناوُ کرائے گئے، جس میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے 63 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو 2، مسلم فرنٹ کو 4 اور آزاد امیدوار 4 سیٹوں پر فاتح نظر آئے۔ جنوری 1990 کو ریاستی اسمبلی پہلے معطل رکھی گئی پھر تحلیل کردی گئی اور چھ سال تک یعنی 1996 تک یہاں صدر راج کا نفاذ عمل میں رکھا گیا۔ 1995 کے وسط میں مرکزی سرکار نے ریاست میں اسمبلی انتخابات منعقد کرانے کی سفارش کی اور یہ انتخابات 1996 میں کرائےگئے۔ ان انتخابات سے قبل اسمبلی سیٹوں میں پھر سے اضافہ کرتے ہوئے ان کی تعداد 87 تک بڑھا دیا گیا۔ وادی کشمیر میں 46، جموں میں 37 اور لداخ میں 4 اسمبلی سیٹیں نئی حد بندی کے مطابق رکھیں گئیں۔ اس چناوُ میں نیشنل کانفرنس کو 57، بی جے پی کو 8، کانگریس کو 7، جنتا دل کو 5، بہوجن سماج پارٹی کو 4، پینتھرس پارٹی کو 1، جموں کشمیر عوامی لیگ کو 1 اور 4 آزاد امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ چھ سال تک یعنی 2002 تک ریاست کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہے۔ ریاستی اسمبلی کے لیے دسویں بار سال 2002 میں انتخابات کرائے گئے جس میں نیشنل کانفرنس نے سب سے زیادہ یعنی28 سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دے دی۔ 1999 میں جموں کشمیر میں ایک اور پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی وجود میں آئی جو مفتی محمد سید جو پہلے جنتا دل پھر کانگریس کے کارکن تھے نے بنائی۔ اس پارٹی کو اس الیکشن میں 16 سیٹیں حاصل ہوئی جبکہ کانگریس کو 20 سیٹیں ملیں تھی۔ آزاد امیدواروں اور باقی چھوٹی پارٹیوں کو کل 23 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس طرح کانگریس اور پی ڈی پی نے کچھ آزاد امیدواروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے حکومت سازی کی۔ تین سال تک مفتی سید وزیر اعلیٰ رہے اور تین سال تک غلام نبی آزاد کو بحیثیت وزیر اعلیٰ منڈیٹ ملا تھا ،لیکن پی ڈی پی نے اپنے تین سال اچھی طرح نکالے مگر غلام نبی آزاد کو بیچ میں ہی حمایت واپس لے کر حکومت گرانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ ریاست کی گیارویں اسمبلی کے چناوُ 2008 میں منعقد کرائے گئے، جس میں نیشنل کانفرنس کو 28، پی ڈی پی کو 21، کانگریس کو 17، بی جے پی کو 11، پینتھرا پارٹی کو 3، کمیونسٹ پارٹی کو 1اور باقی آزاد امیدواروں کو 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ اس بار نیشنل کانفرنس نے کانگریس سے اتحاد کرکے حکومت سنبھال لی اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے چشم چراغ عمر عبداللہ ریاست کے سب سے کم عمر وزیر اعلیٰ بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ برابر چھ سال تک وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے رہے اور شاید وہ آخری ایسے وزیر اعلیٰ ہونگے جو برابر چھ سالوں تک رہے کیونکہ اب اسمبلی کی مدت چھ سال کے بجائے پانچ سال کردی گئی ہے۔ چھ سال کی مدت والی ریاست کے بارویں اور آخری اسمبلی انتخابات 2014 میں منعقد کرائے گئے۔ اس چناوُ میں پی ڈی پی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر آئی اور 28سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ بی جے پی 25، نیشنل کانفرنس 15، کانگریس 12، پیپلز کانفرنس 2، کمیونسٹ پارٹی 1، اور آزاد امیدوار 5سیٹوں پر کامیاب ہوئے۔ اس چناو کے بعد پی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت بن گئی، جو مفتی سید کے انتقال تک تو قائم رہی۔ لیکن جب محبوبہ مفتی نے اقتدار سنبھالا تو یہ مخلوط حکومت زیادہ دیر تک ٹک نہ سکی اور 2018 میں ریاست ایک بار پھر پہلے گورنر بعد میں صدر راج کے تحت آگئی۔ 5اگست 2019 کو پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے قرارداد کےذریعے ریاست کو حاصل خصوصی درجہ زیر دفعہ 370 اور 35A کو منسوخ کرکے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں یعنی یو ٹی جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا گیا جو تاحال قائم ہے۔ 2019 کے بعد پہلی بار ستمبر 2024 میں یہاں تین مرحلوں میں اسمبلی کے چناو کرائے گئے۔ یاد رہے حد بندی کمیشن نے پہلے ہی سات سیٹوں کا اضافہ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو 90 اسمبلی حلقوں پر مشتمل رکھا۔ وادی میں 47 جبکہ جموں صوبہ میں ان کی تعداد 43 رکھا گیا۔ آٹھ اکتوبر 2024 کو ووٹوں کی گنتی عمل میں لائی گئی اور جو نتائج سامنے آئے وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔ نیشنل کانفرنس 42، بھارتیہ جنتا پارٹی 29، کانگریس 6، پی ڈی پی 3، پیپلز کانفرنس 1، عوامی اتحاد پارٹی 1، عام آدمی پارٹی 1 اور آزادامیدوار 7۔ نیشنل کانفرنس سب سے بڑی جماعت ابھر کر سامنے آئی اور کچھ آزاد امیدواروں کی حمایت سے وہ اقتدار سنبھالنے کے قابل ہوگئ۔ اس طرح عمر عبداللہ دوسری بار اور یوٹی جموں و کشمیر کے پہلے وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی ہی کابینہ میٹنگ میں ریاست کا درجہ واپس دلانے کا قرارداد پاس کیا گیا، اسمبلی کے پہلے ہی سیشن میں خصوصی درجہ کے حوالے سے قرارداد پاس کرایا گیا، تعلیمی سیشن کو واپس اکتوبر نومبر میں کیا گیا اور ایک ہزار کے قریب اسامیاں بھرتی ایجنسیوں کو پُر کرنے کی غرض سے انہیں فوری ہدایات دی گئی۔
[email protected]