ڈاکٹر اسماعیل
۲۰۱۹ میں پی ڈی پی اور بی جے پی مخلوط حکومت کا خاتمہ ہوا۔تقریبا چھ سال بعد کوئی عوامی سرکار معرض وجود میں آئی۔جموں کشمیر میں بےروزگاری عروج پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ایک مہینہ پہلے نیشنل کانفرنس نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی جس سےلوگوں میں بالعموم اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں بالخصوص امید کی کرن نظر آنے لگی تھی،مگر اس امید کی کرن پر پانی تب پھیرا، جب چند روز قبل لیکچرر پوسٹس کےلیے نوٹیفکیشن شائع کیا گیا اور اس میں کچھ شعبہ جات کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا تھا ،جن میں ہندی،سنسکرت، کمپیوٹر سائنس اور اسلامک اسٹڈیز ،ویدک اسٹڈیز اور بدسٹ اسٹڈیز ِخاص طور پر قابل ذکرہیں۔جہاں تک آخری دو شعبوں اور اسلامک اسٹڈیز کا تعلق ہے، پچھلے حکومت میں بھی ان شعبہ جات کے فائل کو لے کر اسمبلی میں بھی بحث کی تھی۔جس میں تقریبا ڈھائی سو پوسٹس خالی دکھائی گئیں تھیں مگر بدقسمتی سے تازہ اشتہار میں ان کا جنازہ ہی نکالا گیا ہے۔اگر شعبہ اسلامک اسٹڈیز کی بات کریں گے تو اس شعبہ میں تقریبا ڈیڑھ سو سے زیادہ پی ایچ ڈی ،نیٹ اور جے آر ایف والے در درکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ایم اے اور یو جی سی نیٹ والوں کی تعداد بھی ہزار تک ہوگی۔اخلاقیات سے تعلق رکھنے والے مضامین کی اگر بات کی جائے تو اس وقت سماج کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔اس حوالے سے صرف ایک مثال سمجھنے کے لئے کافی ہے،وہ یہ کہ ہمارا سماج منشیات میں لت پت ہوچکا ہے۔جس کی وجہ سے سماج میں بہت ساری برائیاں جنم لے رہی ہیں اور ان کے اثرات تادیر ہیں۔ضرورت اس بات کی تھی کہ تعلیمی نظام میں اخلاقیات پر مبنی مضامین کو بڑے پیمانے پر حوصلہ افزائی ملتی مگر تازہ نوٹیفکیشن میں ان مضامین کو سرے سے شامل نہ کر کے ان کی ضرورت سے ہی انکار کیا گیا اور ساتھ ہی بڑے پیمانے پڑھے لکھے طبقے کو مایوس بھی کیا گیا۔ یہاں ہم اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس مضمون کا دائرہ بہت وسیع ہے۔اس مضمون کے سیلیبس کے ذریعے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اداروں میں ہم دنیا کی تاریخ،صوفیت،انسان اور سماج، انسان اور اس کے نفسیات، مسلمانوں کے سائنسی کارنامے،عورتوں کےحقوق، ماحول اور اسلام،تقابل ادیان، کثیرالمذاہب سماج میں کس طرح پرامن زندگی گزاریں،اخلاقیات جیسے موضوعات کو بھی پڑھاتے ہیں۔لہٰذا ہم چیف منسٹر، وزیرتعلیم، ان کے مشیروں اور دیگر اعلی حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مضمون کو اسکولوں، ہائر سیکنڈری اسکولوں اور کالجوں میں نہ صرف متعارف کرائیں بلکہ مذکورہ نوٹیفکیشن پر نظر ثانی کر کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے امید کو جگائیں رکھیں تاکہ قوم کا مستقبل روشن سے روشن تر ہوجائے۔