بلال فرقانی
سرینگر//وادی میں زوال پذیر ورثہ اورشان و شوکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں موسم سرما میں ہر فرد کی پوشاک پھیرن اور ہر محفل کی جان وازہ وان کو چیلنجوں کا سامنا ہے اور ان کی بقاء پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ملک بھر جاری ’ہفتہ ورثہ‘ منانے کے بیچ وادی کے بزرگوں اور ورثہ کے امینوں کو اس بات کی فکر ستا رہی ہے کہ کس طرح خطہ کے ورثہ کا تحفظ کیا جائے اور اس کو تاریخ کے گمنام اندھیروں میں کھونے سے بچانے اور اس کی بقاء کیلئے کاوشیں بھی کی جا رہی ہیں۔ وادی کی ثقافت، جس میں اس کے خاص لباس اور مزیدار کھانے شامل ہیں، آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ مقامی لوگ اپنی پہچان اور روایات کے تحفظ کے بارے میں فکر مند ہیں کیونکہ جدیدیت اور عالمی اثرات یہاں بڑھتے جا رہے ہیں۔شاعر و قلم کار ظریف احمد ظریف کا کہنا ہے’’کشمیر کا لباس دہائیوں سے اس خطے کی شناخت اور ورثہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ تاہم، جدید فیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ساتھ روایتی لباس اپنی اہمیت اور مقبولیت کو برقرار رکھنے میں مشکل کا شکار ہے۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا ’’اسلام کے آنے کے ساتھ کشمیری ثقافت اور کھانوں میں بھی تبدیلی آئی۔ اس سے پہلے کشمیری لوگ ایک سادہ زندگی گزارتے تھے ۔ظریف کا ماننا ہے کہ اسلام کے تعارف کے بعد ثقافتی تبادلے نے اس خطے کو نئے لباس کے انداز اپنانے کی ترغیب دی، جیسے یزار (پتلون)، قمیض، پاپوش (روایتی مفلر) اور دستار وغیرہ۔ظریف کا کہنا ہے کہ ان لباسوں میں پھیرن بھی شامل تھا جس کو کشمیریوں نے بھی اپنایا۔
تاہم سرینگر کے ایک مقامی دکاندار زریں نے کہا کہ خصوصاً نوجوان نسل مغربی لباس کو ترجیح دیتی ہے، جس کی وجہ سے قدیم دستکاری اور روایتی ہنر کی مانگ میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔غلام حسن نامی اس دکاندار نے بتایا جدید رجحانات کے سبب پھیرن کے استعمال میں کمی آئی۔ تاہم، حالیہ برسوں میں پھیرن کا دوبارہ احیاء ہوا ہے کیونکہ اب یہ جدید فیشن کا حصہ بن چکا ہے اور کشمیر سے باہر دیگر علاقوں کی خواتین نے بھی اسے پہننا شروع کردیاہے۔ان کا مزید کہنا تھاپھیرن میں کافی بدلائو نظر آیا ہے اور اس کو مغربیت کے لباس کا رنگ دیا گیا ہے،تاہم غلام حسن سمجھتے ہے کہ اگر پھیرن کی بقاء کیلئے یہ ٹھیک ہے تو اس میں کوئی بھی حرج نہیں ہے۔پھیرن کی ہی طرح کشمیر میں ہر محفل کی شان سمجھنے والے وازوان میں بیرونی چیزوں کو داخل کرکے اس کی اصل ہیت کو متاثر کیا گیا ہے۔ظریف احمد ظریف کا کہنا ہے کہ کشمیری کھانوں میں بھی نمایاں تبدیلیاں آئیں، اور کشمیری ہندو اور بدھ مت کے دور میں سبزی خور اور کم مسالے والے کھانے استعمال کرتے تھے تاہم مسلم اثرات والے پکوانوں جیسے کباب، روغن جوش، طبق ماز، ہندی روغن جوش اور آب گوش کو اپنی خوراک میں شامل کرنے لگے، جو بعد میں مشہور وازوان میں یکجا ہوگئے۔ کشمیری کھانوں میں بھی نمایاں تبدیلیاں آ رہی ہیں، جو اپنے لذیذ ذائقوں اور خوشبو دارمصالحوں کے لیے مشہور ہیں۔ کشمیری کھانوں کی اصلیت اب خطرے میں ہے، کیونکہ فاسٹ فوڈ ریستوران اور دیگر عالمی سطح کے کھانے کے اثرات اس علاقے میں پھیل رہے ہیں جس سے ان کی منفرد خصوصیات متاثر ہو رہی ہیں۔وَازوان کئی نسلوں سے محض ایک کھانا نہیں بلکہ یہ کشمیری مہمان نوازی، گرمجوشی اور اتحاد کی علامت رہا ہے۔ اس لذیذ کھانے میں ماہرخان ساماں، جنہیں محبت سے ’وازہ‘ کہا جاتا ہے، روغن جوش، یخنی اور ودانیول قورمہ جیسے پکوان تیار کرتے ہیں، جو قدیم ترکیبوں کے مطابق بنتے ہیں جو نسلوں سے منتقل ہوتی آئی ہیں۔ ہر پکوان کی تیاری میں گھنٹوں کی محنت لگتی ہے اور یہ دعوتیں عموماً شادیوں اور تہواروں جیسی اہم مواقع پر پیش کی جاتی ہیں۔تاہم، ظریف احمد ظریف کا کہنا ہے کہ روایتی وَازوان اب متعدد چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے۔پائین شہر کے فتح کدل کے معروف وازہ محمد سلطان نے کہا’’اس کی زوال کی ایک بڑی وجہ ہنر مند وازوں کی کمی ہے، کیونکہ نوجوان نسل اس کھانے کی روایت کو آگے بڑھانے میں دلچسپی کم ظاہر کر رہی ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ جدید طرز زندگی، شہری علاقوں میں ہجرت اور متبادل پیشوں کا رجحان اس بات کا سبب بن رہا ہے کہ کم لوگ اس فن کو سیکھنے کے لیے درکار وقت اور محنت دینے کو تیار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ، کشمیری معاشرتی تبدیلیوں نے وَازوان کی مانگ کو متاثر کیا ہے۔ مغربی ثقافت کا اثر اور فاسٹ فوڈ کے رجحانات نے نوجوان نسل کو اپنے ثقافتی ورثہ سے دور کر دیا ہے۔ تیز اور آسان کھانے کے انتخاب کی ترجیح ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے، جو وَازوان کو قدیم روایت کی طرف دھکیل رہی ہے۔‘‘ہر گزرتے دن کے ساتھ، کشمیر کواپنی عزیز ثقافت، ورثہ، زبان اور خوراکی خزانہ کے آہستہ آہستہ زوال کا سامنا کر رہا ہے۔ صدیوں پرانی روایات جو کبھی طبقہ جات کو ایک دوسرے سے جوڑتی تھیں، اب وقت کی ریت میں مدھم ہوتی جا رہی ہیں۔ کشمیری شناخت کے جو روشن دھاگے نسلوں کے ذریعے نازک انداز میں بُنے تھے، اب وہ ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔