محمد اسحٰق عارف
معاشرے میں بہت سارے بزرگوں کو آپ نے دیکھا ہو گا کہ اُن کا بُڑھاپا کس کسم پرسی میں گزرتا ہے اور کن کن مصیبتوں اور پریشانیوں کا اُنہیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی میں بہت کچھ کرنے اور کمانے کے باوجود بھی اپنی زندگی کے آخری برسوں میں وہ محتاجی کی زندگی گزارتے ہیں اور اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔جو مکان اُنہوں نے کبھی بہت شوق سے بنایا ہوتا ہے اُس کے صرف ایک کمرے تک وہ محدود ہو جاتے ہیں اور دوسرے کمروں میں اگر وہ کبھی قدم رکھیں بھی، تو ڈرتے ڈرتے ہی کہ کہیں کسی کی ڈانٹ پھٹکار کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جو مال اُنہوں نے اپنا خون پسینہ بہا کر کمایا ہوتا ہے، اُس میں کسی تصرف کی اُنہیں اجازت نہیں ہوتی۔ جس باغ کی شجر کاری اور آبیاری اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سی کی ہوتی ہے، اُسی باغ کے کسی درخت سے ایک پھل تک بھی وہ اُتار نہیں سکتے۔ جن کھیتوں کو اُنہوں نے اپنی محنت سے پیداوار کے قابل بنایا ہوتا ہے اُسی کھیت سے وہ اپنے لئے تھوڑی سی سبزی توڑ نہیں سکتے۔ قسم قسم کے جو بسترے اور کمبل وغیرہ اُنہوں نے بہت شوق سے خریدے ہوتے ہیں، وہ دیکھنا بھی اُنہیں نصیب نہیں ہوتا۔ جس واشنگ مشین کو اُنہوں نے کبھی اپنے گھر کی زینت بنایا ہوتا ہے وہی مشین ایک دن اُن کے گندے کپڑوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے محسوس ہوتی ہے۔ جو رقم اُنہوں نے برسوں تک اپنے بنک کھاتے میں وقتاً فوقتاً جمع کی ہوتی ہے، اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے اُس میں سے کچھ روپے نکالنے کے اختیارات اُن کے پاس نہیں ہوتے۔ جن مویشیوں کو اُنہوں نے پال کر بڑا کیا ہوتا ہے اُن کے ایک گلاس دودھ کے لئے وہ انتظار کرتے تھک جاتے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ یقیناً آپ نے کیا ہو گا اور تعلیم و تربیت سے لے کر ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ جیسی ضرب المثل سے ہوتے ہوئےجدید تہذیب، موبائل فون اور انٹرنیٹ تک آپ نے بہت سی چیزوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہو گا۔ مگر معلوم نہیں کہ آپ نے کبھی یہ بھی سوچا ہے یا نہیں کہ ایسے حالات انسان خود اپنی زندگی میں اپنی جائداد اپنے بچوں میں تقسیم کر کے پیدا کرتا ہے۔کوئی شریعت یا کوئی قانون انسان پر یہ لازم نہیں کرتا کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی جائداد تقسیم کر کے خود دوسروں کا محتاج بن جائے۔
قرآن و حدیث اور فقہ میں تقسیمِ وراثت کے مسائل بہت تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور وراثت اُسے کہتے ہیں جو مرنے والا اپنے پیچھے چھوڑ جائے۔ وراثت کی تقسیم میں کسی قسم کی کوتاہی اور حق تلفی کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں آئی ہیں، مگر اپنی زندگی میں اپنی جائداد کو تقسیم کرنے کا کسی قسم کا نہ تو کوئی حکم ہے اور نہ ہی کوئی ترغیب آئی ہے۔ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا خود مالک اور مختار ہوتا ہے اور اُس کی زندگی میں اُس کی کسی اولاد کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور شریعت کی رو سے کسی اولاد کا یہ حق نہیں کہ وہ والدین کی زندگی میں اُن سے جائداد کا مطالبہ کرے۔ البتہ انسان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی جائداد کا کچھ حصہ اپنی اولاد کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے جسے ہبہ یعنی گفٹ کہا جاتا ہے۔ ہبہ یا گفٹ کے بارے میں ہدایت ہے کہ برابری کی بنیاد پر سب کی دیا جائے چاہے بیٹا ہو یا بیٹی جب کہ وراثت کی تقسیم میں بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کو نصف حصہ رکھا گیا ہے۔موجودہ دور میں ہم نے شریعت کو پسِ پشت ڈال کر اپنے معاشرے کی رسومات کو اپنا دین بنا لیا ہے اور اسی پر ہم عمل پیرا ہیں، جس کا ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے اورہم اپنی آنکھوں سے ایسا کچھ دیکھنا پڑتا ہے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
کیا اس سے بڑی بدقسمتی کچھ اور ہو سکتی ہے کہ آپ نے پوری زندگی جو کچھ کمایا، اُسی پر آپ کا اختیار نہ رہے اور آپ کو ایک معمولی سی چیز جو آپ نے خود کبھی خریدی تھی، کو استعمال کرنے کی اجازت اپنی بہو یا بیٹے سے لینی پڑے۔اگر آپ کا ضمیر اس پر مطمئن ہے تو یقین کر لیجئے کہ وہ مردہ ہو چکا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ تقسیمِ جائداد کے فتنے کو جڑ سے ختم کرنے اور وراثت کی تقسیم کے نظام کو اپنے معاشرے میں رائج کرنے کی جدو جہد کی جائے تاکہ آپ کو بھی یہ سب کچھ نہ دیکھنا پڑے۔
رابطہ۔1912430732