November 18, 2024
ارون جوشی
دفعہ 370پر غیر معمولی ہنگامہ آرائی اور قانون ساز اسمبلی میں ایک قرارداد پاس کئے جانے کے بعد معاملہ ریاست کے درجے کی بحالی کے مطالبے پر منتج ہوا۔ گو کہ مرکز نے ابھی تک اس مطالبے کو ہری جھنڈی نہیں دکھائی ہے۔ تاہم یہ طے ہے کہ جموں کشمیر کے اُس خصوصی درجے کی بحالی کے کوئی امکان نہیں ہیں، جو اسے 4 اگست 2019 سے پہلے حاصل تھی، یعنی جب اسے نیم خود مختاری کی متوازی علامات حاصل تھیں۔
قابل حصوصل اور نا قابل حصول اہداف کے حوالے سے صرف ایک جماعت کا موقف واضح تھا۔ یعنی جموں کشمیر اپنی پارٹی واحد جماعت ہے، جو روزِ اول سے لوگوں سے کہہ رہی تھی کہ سراب کے پیچھے دوڈنے، جو کہ نقصان دہ ہے، کے بجائے حقائق اور حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی بات اب دُرست ثابت ہورہی ہے۔ وزیر اعظم نریندرا مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور پوری قوم اب کشمیر کو بتارہی ہے کہ دفعہ 370 ہمیشہ کےلئے ختم ہوچکا ہے، جبکہ ریاست کے درجے کی بحالی کے مطالبے کو مناسب وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔ اس طرح سے اس بات کی توثیق ہوگئی ہے، جو اپنی پارٹی اور اس کے سربراہ سید محمد الطاف بخاری شروع سے کہہ رہے تھے۔ اس جماعت کو انتخابات میں اس موقف کا بھر پور خمیازہ بھگتنا پڑا اور تمام سیٹیں ہار گئیں۔ کیونکہ طاقتور مخالفین نے یہ پھیلایا کہ دفعہ 370 کا مطالبہ کرنے کے بجائے ریاست کے درجے کی بحالی کا مطالبہ کرکے یہ جماعت بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔
اپنی پارٹی جو مارچ 2020 میں معرضِ وجود آئی ہے، نے جموں کشمیر کے باشندوں کے لئے یہاں کی زمینوں اور ملازمتوں کے تحفظ اور ریاست کے درجے کی بحالی کے مشن کو لیکر شروعات کی تھی۔ اس پر دفعہ 370 کی بحالی کے مشن کے ساتھ بغاوت کرنے کا الزام لگایا گیا۔
حکومت ہند 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کا خاتمہ کیا تھا اور اس کا خصوصی درجہ ختم کرکے اس کے وہ تمام مراعات چھین لئے جو سابق ریاست کے باشندگان کو حاصل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھاجپا قیادت والی این ڈی اے سرکار نے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دو یونین ٹریٹریز میں تبدیل کیا۔ لداخ اس کا مطالبہ کرتا ہی تھا۔ تاہم اس طرح سے جموں کشمیر کا تنزل کیا گیا لیکن اس کے ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ ایک مناسب وقت پر اس کا ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔
اب اس مرحلے پر جب ریاست کے درجے کی بحالی کا مطالبہ مرکز کی جانب سے کئے گئے وعدے کے تناظر میں ابھارا جارہا ہے کیونکہ اس ضمن میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں اور وزیر اعظم نریندرا مودی نے عوامی جلسوں میںکیا ہے اور جموں کشمیر میں عمر عبداللہ حکومت نے قرارداد بھی پاس کی۔ اس طرح سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ مارچ 2020 میں جو سفر اپنی پارٹی نے شروع کیا تھا، اس کی بنیاد ایک وژن پر تھی۔
جموں کشمیر میں نیشنل کانفرنس، کانگریس، پی ڈی پی اور دیگر جماعتوں نے سوچا اور اس کا پرچار بھی کیا کہ ریاست کا درجہ ملنا ہی ملنا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اپنی پارٹی عوام کی توجہ اصل مسلئے یعنی دفعہ 370 کے تحت خصوصی درجے کی واپسی سے ہٹانا چاہتی ہے۔ اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ مرکز کے ایجنڈے کے تحت کام کررہی ہے۔
یہ کہنا کہ دفعہ 370کے آئین میں واپس جڑ جانے کے بعد جموں کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال ہوگا ہی، ایک مفروضہ تھا کیونکہ 5 اگست 2019 کے فیصلے کو کالعدم کرنے کے لئے جموں کشمیر کی جماعتوں کا پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ ان جماعتوں نے اپنی ساری اُمیدیں عدالت عظمیٰ سے وابستہ کرلی تھیں، جہاں انہوں نے دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف متعدد عرضداشتیں دائر کررکھی تھیں۔
انہیں یقین تھا کہ فیصلہ اُن کے حق میں آئے گا کیونکہ ماضی میں عدالتِ عظمیٰ نے دو بار دفعہ 370 کے کو بحال رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس علاوہ ان کا استدالال تھا کہ دفعہ 370 کے خاتمے کے وقت قانون ساز اسمبلی کی عدم موجودگی میں اُس وقت کے صدارتی راج میں گورنر ستہ پال ملک اسمبلی کے متبادل نہیں ہوسکتے تھے۔
جہاں تک دفعہ 370کا تعلق ہے، اس کے آئین ہند میں واپس درج ہوجانے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر کبھی دوسری پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں اتنی اکثریت حاصل ہو بھی جاتی ہے، جتنی بڑی اکثریت نے دفعہ 370 کو منسوخ کیا تھا، تب بھی اسے واپس نہیں لایا جاسکتا ہے، کیونکہ ملک کے عوام کو یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ کوئی بھی جماعت بھارتی عوام کی منشا کے خلاف نہیں جاسکتی ہے۔کانگریس اس معاملے میں خاموش ہے۔ ملک کی یہ سب سے قدیم جماعت خود کو 6 نومبر کو جموں کشمیر اسمبلی کی جانب سے پاس کردہ قرارداد سے دور بھاگ رہی ہے، جس میں آئینی ضمانت کے ساتھ خصوصی حیثیت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ بار بار دعویٰ کررہی ہے کہ اس کا سپورٹ صرف اور صرف ریاست کے درجے کی بحالی کو حاصل ہے۔
نریندرا مودی سرکار نے دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد بہت کچھ کیا ہے۔ اس نے 5 اگست 2019 کے فیصلے کے ارد گرد کئی بیانیہ بُن لئے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے باغی جموں کشمیر کو قومی دھارے میں لاتے ہوئے اور قومی انضمام مکمل کرتے ہوئے پاکستان کے تمام منصوبوں کو ناکام بنادیا ہے۔ سماجی انصاف کے تصور میں اس نے خود کو خواتین کے حقوق، شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائب، اور حاشیے پر کھڑے طبقات جو سماجی اور سیاسی حقوق سے محروم ہیں، کے لئے ایک مسیحا کے بطو ر پیش کیا ہے۔ معاشی فرنٹ پر یہ لاکھوں سیاحوں اور سرمایہ کاری کو وادی پہنچانے کے دعوے کررہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑنے سے لیکر عوام کی معاشی فلاح تک یہ بیانیوں کا منفرد مجموعہ ہے۔ اس عمل کے دوران یہ ریاست کے درجے کی بحالی سے توجہ ہٹارہی ہے۔ شاید یہ اس مطالبے پر کوئی فیصلہ لینے سے پہلے صورتحال کا جائزہ لینے کےلئے مزید وقت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یعنی یہ ایک مناسب وقت کا انتظار کررہی ہے۔ اس تناظر میں اپنی پارٹی کا موقف اور مارچ 2020 میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے اس کا ملنا یہ بتارہا ہے کہ اس جماعت کو معاملے کی حساسیت کا بھر پور اندازہ تھا۔ یہ جماعت سرابوں کے خلاف حقائق کی جنگ لڑرہی تھی۔ اسکے سربراہ الطاف بخاری نے ہمیشہ کہا کہ وہ آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے وعدے یعنی دفعہ 370 کی بحالی کا وعدہ نہیں کریں گے، کیونکہ وہ ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے ریاست کے درجے کی بحالی کےلئے لڑنے تیہہ کرلیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ مرکز کا دروازہ کھٹکھٹانے کا راستہ ہے۔ یعنی وہی دروازہ جو دفعہ 370 کی بحالی کے وعدے پر الیکشن لڑنے والے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اس وقت ریاست کے درجے کی بحالی کےلئے کھٹکھٹا رہے ہیں۔
( جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے سینئرصحافی ارون جوشی کا یہ مضمون ’ڈیلی ورلڈ‘ میں شائع ہوا ہے)