صبر کا دیا

3 hours ago 1

September 21, 2024

طارق اعظم

رات کے ڈھائی بجے یعنی تہجد کا وقت چل رہا تھا۔ اور چاند نے نصف منزل پار کر دی تھی۔ خنک ہوائیں ہر سمت، شبنم کے قطروں کی آواز۔۔۔ٹپ۔۔۔ٹپ۔ اور خاموشی ہر چیز پر ہوگئی تھی طاری ۔ وہیں دامنِ کہسار میں اک گروندھے ، جہاں ماں بیٹی پناہ گزیں تھیں۔ میں رات کا اندھیرا چھا گیا تھا۔ تو ضعیف العمر نحیف البدن خاتون نے اک دیئے کو جلایا۔ کمرے کی دیواریں جو کہ مٹی سے لیپی ہوئی تھیں، روشن ہوگئیں۔ عادتِ جوانی کے مطابق اس ضعیفہ نے ٹھنڈے پانی سے وضو کیا۔ اگر چہ باہر سردی کا موسم بھی چل رہا تھا۔ ہائے! وہ کہتے ہے ناں کہ جہاں عشق ہوتا ہے وہاں انگاروں پر چلنا، مخمل کے فرش پر چلنے سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ وضو مکمل ہوا ، ہلکی سی سردی محسوس ہوئی ، اللہ ،اللہ کرتے کرتے کمرے میں داخل ہوئی۔ یہ کمرہ فقط عبادت کے لیے مخصوص رکھا گیا تھا۔ جہاں قبلہ کے سیدھ والی دیوار پر ایک چھوٹی سی الماری تھی جس کے اوپر لکڑی سے بنا ہوا شلف تھا، جہاں یہ قرآنِ مجید اور مصلیٰ رکھا کرتی تھی۔ کمزور ہاتھوں سے آہستہ آہستہ شریف قرآن اور مصلیٰ نیچے اتارے۔ جائے نماز بچھا دی، دو رکعت نمازِ تہجد پڑھی اور اس کے بعد قرآنِ مجید کو سینے سے لگایا۔ جہاں کل تلاوت مکمل ہو گئ تھی اسی نشانے کو نکال کر ، تلاوت آگے شروع کی یا أيها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلاة ان اللہ مع الصابرین۔۔۔۔۔ خشک ہونٹ جنبش کرنے لگے۔۔۔۔ پورا وجود وجد میں آیا۔۔۔۔ بُجھی ہوئی آنکھوں سے تارِ باراں ہوا رواں۔۔۔۔ یہاں تک ہچکیاں زور زور سے ہونے لگی۔ تو بغل والے کمرے میں اماں ۔۔۔۔۔اماں جان ۔۔۔۔کی آوازیں آنے لگیں۔ جب اماں جی کے کانوں کے پردوں سے یہ محبت خیز آواز ٹکرائی، تو اس نے جلدی جلدی چادر کے آنچل سے آنسوں پونچھے اور واپس جواب دیا۔۔۔ ہاں میرا جگر ۔۔۔۔میں یہیں ہوں آپ گھبرائو نہیں ، ابھی آرہی ہوں۔اماں جی دعاء میں مگن ہوئی پھر اچانک سے اُسے وہ آواز یاد آئی۔ اس نے تمام وظائف مختصر کئے اور دوسرے کمرے میں چلی جہاں اس کی یتیم بچی سو رہی تھی۔ اماں جی خراماں خراماں اس کے سرہانے بیٹھی ۔ کافی دیر تک اپنی بیٹی کے مہتاب جیسے چہرے کو دیکھتی رہی۔ کبھی اسکی جبین کو بوسہ دیتی تو کبھی اس کے گھنگریالے بالوں کو سہلا رہی تھی اور خود سے مخاطب ہو کے بولی میری بیٹی کی آنکھیں بالکل اپنے پاکدامن، شریف اور باوقار باپ سے ملتی ہیں۔ ہائے ۔۔۔کاش آج یوسف صاحب ہوتے، اور اپنی بیٹی صفورہ کو دیکھ کر کتنے خوش ہوجاتے۔ اماں جی کے کانوں میں وہ یوسف کی باتیں آج پے در پے گونجنے لگیں۔ خالدہ جب صفورہ بڑی ہوگی نا۔۔۔۔تو ہم اس کو اچھی خاصی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے۔ اور اس کا زمانے کے بڑے عالمِ دین سے نکاح کرئیں گے۔اسی طرح بہت ساری خواہشیں۔ صفورہ اس وقت صرف تین سال کی تھی جب اس کا جوان باپ حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے رخصت کر گئے۔ دل میں جو تمنا ، آرزو اور شوق تھے دل میں ہی رہ گئے ۔آہ۔۔۔۔کتنی بے رحم دنیا ۔۔۔خالدہ کی آنکھیں نم ہوگئیں اور آنسوں کے گرم گرم قطرے صفورہ کے معصوم چہرے پر گر پڑے۔ یک دم اسکی آنکھیں کھلیں ۔۔۔۔اماں جی۔۔۔۔۔ یہ آنسوں۔۔۔۔۔آپ کیوں رو رہی ہیں۔ آپ ابھی تک سوئیں نہیں ۔۔ کیا آپ کو درد ہے ۔۔۔۔اماں بڑی ہمت کر کے بولی ۔ نہیں بیٹا بس ایسے ہی ۔ اچھا سوتے ہیں۔ دیر ہوگئی۔ ماں نے اپنی بیٹی کو سینے سے لگایا اور بیٹی نے ماں کے زرد چہرے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ اور سو گئیں۔
صبح صادق ہوچکا تھا۔ پرندے مختلف بولیوں میں حمدِ باری تعالیٰ کرنے لگے۔ کہیں کوئل خاموش جنگل میں گو گو۔۔۔۔ کہیں ہُد ہُد یا ھُو کا دم بھر رہا ہے۔ آفتاب جہتِ مشرق سے طلوع ہونے لگا۔ آسمان پر سُرخ لکیریں نمودار ہونے لگیں۔ وہیں اک کرن سفر کرتے کرتے خالدہ کے گھر کے روشن دان سے داخل ہوئی اور صفورہ کی آنکھوں پر ٹھہری ۔صفورہ آنکھوں کو ملنے لگی ، رضائی کو ہٹایا ۔ اماں جان۔۔۔۔اماں جان کہتے اُٹھیں ۔ یہ دیکھیں آج کتنی دیر ہوگئی ہے۔ اُٹھیں نا۔۔۔ اماں۔۔۔ واپس کوئی بھی جواب نہیں آرہا تھا۔ صفورہ خوف کے عالم میں پڑ گئ۔ اس نے تھوڑی سی ہمت کی اور اسکا نبض چیک کیا۔۔۔۔۔ امی۔۔۔۔۔صفورہ کا پورا وجود جمود ہوا ۔ رگوں میں خون منجمد ہوا۔ آنکھیں دنگ رہ گئیں۔ منہ کھلا ، ہونٹوں میں تھر تھراہٹ۔ اندر دل میں جذبات میں کھل بلی مچ گئی اور لمبے وقفے کے بعد صفورہ کے حلق سے ایک چیخ نکلی۔ اماں جان۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی مجھے چھوڑ کے چلی گئیں کیا۔ میں۔۔۔۔آپ کی چھوٹی صفورہ ۔۔۔۔۔ آپ کا جگر کہاں جاؤں۔ آنکھوں سے قلزم اور دریائے نیل ایک ساتھ بہہ رہے تھے۔ شاید خالدہ اپنے شوہر یوسف کی جدائی کو برداشت نہیں کر پائی۔ عرب والا کہا کرتے ہیں کہ جدائی موت سے زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔ بہرحال وہی ہوتا ہےجو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ پورے محلے میں خالدہ کی فوتیدگی کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ تجہیز و تدفین مکمل ہوئی۔ یوسف کے پہلو میں خالدہ کی قبر بنائی گئی۔ دور سے اس طرح لگ رہا تھا جیسے صد سال کے بعد کسی منتظر کو اپنا محبوب گلے لگا ہے۔
وقت کی سوئیاں تو آگے کو ہی چلتی رہتی ہیں، ساتھ ساتھ ہم وقت انسانوں کو بھی آگے آگے دھکیلتی رہتی ہیں۔ زمانہ اپنے کتنے درد چھپاتا رہتا ہے۔ لیکن اس یتیم بچی کا درد اتنا شدید تھاکہ نہ زمانہ چھپا سکھا ۔ ناہی صفورہ خود۔ لاکھ چمن ویران ہوجائیں بھی اگر لیکن کاروانِ دنیا تھوڑی ہی بند ہوگا۔اب صفورہ کی پروش ننیہال کے گھر میں ہورہی تھی جو کہ اس کے گاؤں سے دو میل کے فاصلے پر تھا۔ نانی اور نانا صفورہ کا نہایت ہی خیال کرتے تھے۔ اسے ماں باپ کی محرومی محسوس ہونے نہیں دیتے تھے لیکن اپنے والدین کا سایہ۔۔۔؟ تاہم اسکے بڑے ماموں محمد حکیم نے اپنی یتیم بانجھی کا بارویں جماعت کا ایڈمشن گورنمنٹ ہائرسکینڈری میں کیا۔ صفورہ روز ننیہال سے سکول پیدل جایا کرتی تھی۔ جس راستے اسے جانا پڑتا تھا اُس کے بیچ میں اسکا اپنا گھر آتا تھا۔ وہ آدھی آدھی نظریں اس گھر کی طرف ڈالتی اور نہ جانے کس کرب سے گزرتی تھی۔ آنکھوں کے دریچے پر کچھ آنسوں نکل آتے تو انہیں وہیں صبر کے ریگستان میں جذب کر لیتی ۔ وہ اکثر کلاس میں خاموش بیٹھا کرتی تھی۔ اسکے شوخ چہرے پر کرب و درد کی داستانیں واضح ہو رہی تھیں۔ ایک دن حامد سر، جو کہ ان کا اردو استاد تھا، ماں باپ کی خدمت گزاری ،اہميت اور ان کے حقوق پر کلاس میں لیکچر دے رہا تھا۔ سب بچے بچیاں غور سے سن رہے تھے۔ وہیں صفورہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔حامد سر اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور بولا۔ صفورہ۔۔۔صفورہ۔۔۔ بیٹا آپ کیوں رو رہی ہو۔ وہ کچھ بھی نہیں بولی بس روتی روتی بے ہوش ہوگئی۔ حامد سر نے اسکو اپنے سینے سے لگایا ۔ اسے اپنے یتیمی کے دن یاد آئے اور خود بھی رونے لگا۔ کچھ دیر بعد صفورہ کی آنکھیں تھوڑی تھوڑی کھلی ، اماں جان ۔۔۔۔اماں جان۔۔۔۔۔ مجھے پانی دیں۔ کلاس میں صفورہ کی ایک سہیلی نے اسے پانی پلایا اور صفورہ مکمل ہوش میں آئی۔ وہ اپنے استاد کی طرف مڑ گئی اور دھیمی آواز میں بولی ۔ سر جس کے دونوں ماں ، باپ نہیں ہوں وہ کیا کریں۔۔۔؟ اس کی آواز درد سے لبریز تھی۔ حامد صاحب کا سر نیچے ہوا اور کافی وقفے کے بعد وہ صفورہ کے طرف دیکھ کر بولے۔۔۔ صبر۔۔۔۔صبر۔۔۔۔وہ بھڑک اُٹھی اور بولی۔ کیا صبر ۔۔۔صبر۔۔۔ میری اماں بھی مجھے بولا کرتی تھی۔ صفورہ زندگی کی تاریکیوں میں صبر کا دیا جلانا۔ لیکن سر آپ دیکھئے ناں میں کتنی چھوٹی ہوں اور صبر کرنا۔۔۔۔! حامد سر اسکی باتیں سکون سے سنتا رہا ۔ آخر میں بولے۔ بیٹا جن کلفتوں سے آپ گزر رہی ہو میں نے یہ آگ کے دریا پار کئے ہیں۔ پتا ہے کیسے ۔۔۔۔۔ صفورہ کے ہونٹوں پر ذرا سی مسکراہٹ نمودا ہوئی اور بولی۔ کیئے پار کئے ہیں سر۔ قسم اس خدا کی بس صبر کی کشتی میں بیٹھ کر پار کئے ہیں صفورہ۔۔۔۔ ورنہ میری حالت پتہ نہیں کیسی ہوتی۔ لوگوں نے کتنے مذاق میرے اُڑائے ہوتے۔ پھر ہر روز در در پر جا کر مدد کی دستک دینی تھی۔ لیکن شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا، بے سہارا نہیں کیا۔ صفورہ مجھے عرب والوں کی ایک کہاوت یاد آئی ۔ وہ کہا کرتے ہے کہ شر میں خیر ہوتا ہے۔ واقعی اللہ نے مجھے شر سے خیر نکال کے دے دیا اور نوشیروان کا قول بھی ہے کہ تمام دنیاوی مصیبتیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک میں تدبیر کام دیتی ہے جیسے کہ بے چینی کی دوا ہے۔ دوسری میں کوئی تدبیر نہیں صرف صبر کام آتا ہے۔ بیٹا ایک حکیم کہا کرتے تھے کہ جن چیزوں کا کوئی علاج نہیں وہاں صبر کام دیتا ہے۔ صفورہ ۔۔۔۔۔میں با اُمید ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو کبھی مایوس نہیں کریں گے۔ انشاء اللہ آپ بہت آگے جاؤ گی۔ بس صبر کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا۔ آپ پریشان نہ ہو ۔کسی بھی چیز کی آپ کو ضرورت پڑے تو مجھے بتانے میں شرم محسوس نہیں کرنا۔آج سے آپ میری دوسری بیٹی ہو۔ حامد صاحب نے صفورہ کے یتیم سر پر اپنا شفقت کا ہاتھ رکھا۔ اور نکلنے لگے وہ ابھی دروازے پر ہی پہنچے تھے کہ صفورہ نے پیچھے سے آواز دی۔ سر ۔۔۔۔۔سر۔۔۔۔ مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے ۔ جی بیٹا بولیں۔ سر میری امی روزانہ تہجد پڑھا کرتی تھی اور پھر اپنے پروردگار سے باتیں کیا کرتی تھی۔ وہ بہت مناجات پڑتی تھی۔ لیکن مجھے اُن کے پڑھنے سے ایک کلام یاد رہا مجھے اسکا مفہوم سمجھ میں آرہا ہے۔ کیا آپ سمجھائیں گے سر۔ جی بیٹا آپ بتائے کیا تھا وہ کلام۔ جی سر وہ کچھ اس طرح کا تھا کہ۔ خدا شرے بر انگیزد کہ خیر مادر آں باشد، ۔ہاے۔۔۔۔ ہائے۔۔۔۔۔ یہ تو وداعہ السہمی کا کلام ہے۔ بیٹا جب میرے باپ کا انتقال ہوا تھا ۔ تب جنازے پر ہمارے امام صاحب نے یہ کلام پڑھا تھا۔ اس کا مطلب ہے۔ کہ شر پیش آئے تو صبر کرو کہ اکثر شر سے خیر نکلتا ہے۔ صفورہ کی امیدوں کے مجسم میں جان آئی اور بولی۔ سچ میں سر کیا ایسا ہوتا ہے۔ جی ہاں بیٹا بالکل ایسا ہی ہوتا ہے اور میرے ساتھ تو ہوا ہے۔ حامد سر پوری کلاس کی طرف متوجہ ہوگئے اور بولے۔ میرے پیار بچوں ہمارا پرودگار قرآنِ کریم میں فرماتے ہے۔ کہ ہر مشکل وقت میں صبر کرو کیونکہ صبر کرنے والوں کو میں بہت پسند کرتا ہوں۔ صبر مومنوں کی خاصی صفت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی مبارک زندگی میں صبر کا بہت اہتمام کیا، ساتھ ساتھ ہمیں بھی اس کی تلقین کی ہے۔ تو میرے بچوں کون کون آج کے بعد صبر کا دیا زندگی کے مشکل اور تاریک دنوں میں جلائے گا۔۔صفورہ نے سب سے پہلے ہاتھ اوپر کیا۔۔۔۔ سر میں اپنی اماں جان کا صبر کا دیا ہمیشہ روشن رکھوں گی۔۔۔چُھٹی کا ٹائم پہنچا تھا۔ سب بچوں کی طرح آج صفورہ بھی پہلی بار خوشی خوشی گھر کی طرف لوٹ واپس جا رہی تھی۔
���
ہردوشورہ ٹنگمرگ
موبائل نمبر؛ 8082022014

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article