نظمیں

3 hours ago 1

September 21, 2024

اُستاد
مجھے انساں بنانے کو لہو جس نے جلایا ہے
حقیقی علم سےواقف مجھے جس نے کرایا ہے
خدا کے بعد جو ہے محسِن وہ استاد ہےمیرا
وہ اک استاد ہے میرا ۔ہاں اک استاد ہےمیرا

میں کیسے بھول سکتا ہوں پکڑ کر ہاتھ لکھوانا
کوئی غلطی نہ رہ جائے تلک کا پی وہ جھک جانا
نظر سے اپنی دنیا کو مجھے جس نے دکھایا ہے
وہ اک استاد ہے میرا ۔ہاں اک استاد ہےمیرا

دیا جس نے ہتھیلی پر لئے اپنی جلایا ہے
بغیچے میں مرے جس نے بہاروں کو بلایا ہے
زمیں بنجر تھی محنت سے اسی نے گُل اُگایا ہے۔
وہ اک استاد ہے میرا۔ ہاں اک استاد ہےمیرا

تمنّا ذر کی اس کو ہے نہ شہرت کی کوئی حسرت
رہے آباد کل دنیا دعا اُس کی ہے ہر ساعت
گزاریں زندگی مل کر سبق جس نے پڑھایا ہے
وہ اک استاد ہے میرا ۔ہاں اک استاد ہےمیرا

یہی ہے آرزو اُس کی مجھے منزل ملے ہر دم
خوشی ہو ساتھ میرے اور نہ آئے پاس کوئی غم
ہر اک مشکل ہو حل کیسے، ہنر جس نے سکھایا ہے
وہ اک استاد ہے میرا۔ ہاں اک استاد ہےمیرا

کبھی استاد کی رہ پر قدم دو چار چل پاؤں
ہو میرا معتبر پیشہ کبھی اُستاد کہلاؤں
رہوں پرواز ؔاحساں میں چلن جس نے سکھایا ہے
وہ اک اُستاد ہے میرا ۔ہاں اک اُستاد ہےمیرا

جگدیش ٹھاکر پروازؔ
لوپارہ دچھن ضلع کشتواڑ
موبائل نمبر؛9596644568

روز و شب اپنے نِباہ لیتا ہوں

جب کبھی آوارہ سوچوں کو بھگا دیتا ہوں میں
پھر خیالوں کی نئی بستی بسا لیتا ہوں میں

اور پھر طوفانِ اوقات سے پڑے جب واسطہ
کاوشِ تدبیر سے اُن سے نباہ لیتا ہوں میں

حوصلوں میں اب بھی قائم جہد کا ہے ذوق و شوق
ہر کارِ ناممکن کو ممکن اب بھی بنا لیتا ہوں میں

نوحہ خوانی ہے نہ میری طبعِ نازک کا شعار
حالتِ ناگفتہ بہہ میں بھی مُسکرا دیتا ہوں میں

جانتا ہوں گو حیاتِ زیست کے رازونیاز
پھر بھی راہِ راست پہ کچھ ڈگمگا جاتا ہوں میں

باوجود کسمپرسی کے بھی رہتا شاد ہوں
جیسے تیسے روز و شب اپنے نباہ لیتا ہوں

میری فطرت سے ہیں باور اب میرے احباب سب
ماتمی ماحول ہوگر اُن کو ہنسا دیتا ہوں میں

ایک اُردو ہے کہ جس کے ذوق سے زندہ ہوں میں
ذہنِ کمتر میں اِسے اکثر جگہ دیتا ہوں میں

ازل سے عُشاقؔ عاشق ہوں زبانِ داغؔ کا
اِک بدولت اس کے ہی اب خود کو بہلاتا ہوں میں

عُشاقؔ کشتواڑی
کشتواڑ، جموں،
موبائل نمبر؛9697524469

پل دو پل
چلو تھوڑی دیر کے لئے آج غموں کو بھول جائیں
اُنکے کندھوں پر زُلف کے خموں کو بھول جائیں
آج کوئی گلہ، کسی شکایت کا جی نہیں کرتا
درد کی اس کیفیت میں ، زخموں کو بھول جائیں
چمن کے پھول آج بہت مہک رہے ہیں
رنجشیں چھوڑ کر آؤ کا نٹوں کو بھول جائیں
وفا کی راہ میں تھا ما آپ نے جو صبر کا دامن
چلو اک بار اور اپنے دکھوں کو بھول جائیں
جب روتے ہیں تو زمانہ سمجھے کہ ہنستا ہے
گُماں یہ اُنکا اپنا ہے ، چلو نصیبوں کو بھول جائیں
یہ زندگی بھی تو آخر اُسی کی امانت ہے
کہیں دیر نہ ہو جائے، خطاؤں کو بھول جائیں
تنہاؔآج بہت اضطراب کے ہیں لحات
وہ چلے جائیں گے چلو اشکوں کو بھول جائیں

قاضی عبدالرشید تنہاؔ
روز لین، چھانہ پورہ، سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛ 7006194749

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article