کاش ایسا ہو جائے !

2 hours ago 1

September 21, 2024

ش۔شکیل

وہ گھر کے تمام کاموں سے فارغ ہو کر دوپہر کا کھانا کھا کر صوفے پر آرام سے بیٹھ گئی ۔بے خیالی میں یوں ہی ٹی ٹیبل پر رکھا اخبار اُٹھا کر پڑھنے لگی۔ہر ایک صفحے پر کسی نہ کسی شہر میں عورتوں اور لڑکیوں کی آبروریزی اور تشّدد کی خبریں اُس کی نظروں سے گذر رہی تھیں۔خبریں پڑھتے پڑھتے اُس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔اُس کے دل و دماغ نے اُس سے سوال کرنے لگے۔’’صنف نازک پر اس طرح کے تشّدد کا مکمل خاتمہ کب ہوگا؟کیا صنف نازک اپنے طور پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کوئی لائحہ عمل مر تب نہیں کر سکتی؟ کیا تمام عورتیں اور لڑکیاں حکومت اور ملک کی تمام عدالتوں کو ایسا قانون بنانے پر مجبور نہیں کر سکتیں کہ جن مردوں نے تشدد کیا اُنہیں عورتوں کے حوالے کر کے ان ہی کے ذریعہ سزا دلائی جائے۔اس طرح کے سوالات میں کب تک اُس کا دل ودماغ محو رہا اُسے بھی خبر نہیں ہوئی۔دوسری طرف کا م کی تھکن اور پیٹ بھر کا کھانا کب اُسے نیند کی آغوش میں لے گیا اُسے خبر نہ ہوئی۔اب وہ خواب دیکھ رہی تھی‘خواب میں وہ ایک بلند و بالا مقام کھڑی ہوئی ہے اور اُس کے سامنے عورتوں اور لڑکیوں کا ایک لا متناہی سمندر ہے اور اُس کے سامنے ملک کا وزیر اعظم اور ملک کے تمام جج موجود ہیں اور وہ اُنہیں مخاطب کرکے کہہ رہی ہے۔ ’’اب تک کے تمام زانیوں کو ہمارے حوالے کر دو ہم اُنہیں پیٹ پیٹ کر ختم کر دے نگے۔ابھی اور اسی وقت یہ قانون بنادو کہ جہاں کہیں اب کے بعد تشدد ہوگا، آبروریزی ہوگی۔ اُن مجرموں کو عورتوں اور لڑکیوں کے حوالے کر دیا جائے گا اور ملک کی عورتیں اورلڑکیاں زانیوں کو پیٹ پیٹ کر ختم کر دینگی۔ کیوں میری بہنوں اور میری بیٹیومیں نے سچ کہا نا؟ہاں ہاں تمام زانیوں کو ہمارے حوالے کردو، ابھی سی وقت ہم اُنہیں ختم کر دے نگے۔‘‘اسی کے ساتھ قانون بنایا گیا اور تمام زاینوں کو عورتوں اور لڑکیوں کے حوالے کر دیا گیا ۔تمام عورتوں اور لڑکیوں نے مار مار کر اُنہیں ختم کر دیااور نعرے لگانے لگیں ’’ناری شکتی زندہ باد‘ناری شکتی زندہ باد‘‘وہ بھی نیند میں اپنا ہاتھ بار بار بلند کر رہی تھی۔اُس کی بیٹی نے نیند میں ماں کی حالت دیکھی تو وہ گھبرا کر ماں کا کندھا پکڑ کر دھیرے دھیرے ہلاتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ ’’کیا ہوا امی آپ کو ۔۔۔کیا ہوا امی آپ کو؟‘‘وہ ہڑبڑا کر آنکھ کھول کر بیٹی کی طرف دیکھی۔اُس کے ہونٹوں پر ایک بے جان سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔وہ بیٹی سے کہہ رہی تھی۔’’اخبار پڑھتے پڑھتے آنکھ لگ گئی تھی۔‘‘نیند سے بوجھل دل و دماغ پھر سے سوالات کر رہا تھا۔’’کیا ملک کی عورتیں اس طر ح کا کوئی لائحہ عمل کر سکیں گی؟کیا ملک کا وزیر اعظم اور ملک کی عدالتیں اس طرح کا قانون بنا کر پاس کر دینگے؟ کیا تمام زانیوں کو سزا دینے کا اختیار عورتوں کو حاصل ہوگا؟‘‘ وہ ایک طرف اخبار رکھ کر اٹھ گئی۔ باورچی خانے میں جاکر وہ شام کی چائے بنانے میں مشغول ہو گئی۔بیٹی حیرت اور تعجب کی مورت بنی صرف ماں کے چہرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھتی رہی۔اُس کے چہرے پر بھی سوالات ہی سوالات تھے جس کاکوئی جواب نہ تھا۔
قصور وار کون؟
ایک مکان سے دو زنانہ آوازیں رات کے سناٹّے کوچیر رہی تھیں۔ جس میں ایک بھاری نحیف آواز تھی اور دوسری سریلی مترنم آواز تھی ۔سریلی مترنم آواز بھاری نحیف آواز سے التجا کر رہی تھی۔’’معاف کردو ماںجی۔۔پھر کبھی ایسی غلطیاں نہیںہوں گی۔۔میں تمہارے پائوں پڑتی ہوں‘ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔معاف کردو ماں جی۔‘‘کچھ دیر تک سسکیاں گونجتی رہیں اور ان سسکیوں میں ایک آواز’’کھٹا کھٹ۔۔دھپ دھپادھپ‘‘بھی تھی۔چند لمحوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔’’خداکے حضور گڑگڑاکر گناہوں کی معافی مانگی جائے تو خدا معاف کردیتا ہے۔‘‘دفعتًا مترنم آواز غرا اُٹھی۔ ’’لیکن تم انسان کے بھیس میں شیطان ہو اور شیطان کو بھگانے کا وظیفہ مجھے آتا ہے۔‘‘اسی کے ساتھ ہی دھپ دھپا دھپ کھٹ کھٹا کھٹ کی آواز سناٹّے کو چیر نے لگی تھیں۔اس کے ساتھ نحیف بھاری آواز التجا کر رہی تھی۔’’مجھے معاف کردے بیٹی مجھے معاف کردے۔۔میری عقل پر پردہ پڑگیا تھا۔۔۔میرے قصور کو معاف کردے۔‘‘مترنم آواز غرا اُٹھی ’’معاف کردوں۔۔۔کس کو معاف کردوں؟تمہاری کوکھ کو یا میری کوکھ ؟۔۔۔ ایک کوکھ سے دوسری کوکھ نے جنم لے اور اس کے ساتھ ایسا سلوک جیسا کے میرے ساتھ ہوا ہے تو قصو ر کس کا ہے قصور وار کون ہے؟‘‘
���
اورنگ آباد (مہاراشڑ)
موبائل نمبر؛9529077971

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article