عالمی امن کا خواب کب پورا ہوگا؟

6 days ago 3

November 18, 2024

بلا شبہ ہم سب اس بات کے متحرف ہیں کہ آج جس زمانہ میں ہم سانس لے رہے ہیں،یہ زمانہ سائنس اور ایٹمی ترقی کا زمانہ ہےجبکہ ایٹمی ہتھیاروں کی بے پناہ قوت ،اس زمانہ ہی کے انسان کے اشاروں پر ایک وفا دار غلام کی طرح کام کرتی ہےاور یہ خصوصی طاقت آج کے انسان امن و استحکام ، انسانیت کی بقاء اور ترقی کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں اور جنگ کے لئے بھی۔در حقیقت دنیا کا پڑھا لکھا ہرتعلیم یافتہ فرد اس بات سے بھی واقف ہے کہ آج سے قریباً 80سال قبل جب ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹمی طاقت کو جنگ میں استعمال کیا گیا تھا،تو محض ایٹمی قوت کے دو دھماکوں نے ہی لاکھوں انسانوں کو فناکے گھاٹ اُتاردیا تھااور سینکڑوں میل تک انسان، حیوان،درند ،پرند و چرندکے ساتھ ساتھ درخت اور پودے تک خاک کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے تھے اور لاکھوں انسان ہمیشہ کے لئے اپاہج ہو گئے۔ جبکہ اِس زمانہ میں موجودہ ہائیڈروجن بموں کی طاقت، اُن استعمال شدہ بموںکے مقابلے تین گناہ زیادہ تباہ کن ہیںاورایسے بموں کےلاتعداد ذخیرے آج دنیا کی کئی ایٹمی طاقتوں کے پاس موجود ہیں۔ اگران میں سے چند ہی بم کسی جنگ میں استعمال کئے گئے تو تمام دنیا تباہ اور برباد ہو سکتی ہے۔چنانچہ آج دنیا بھر میں جس طرح کا سیاسی ماحول اور جنگی صورت حالچلی آرہی ہے،اُس سے یہی خدشہ لا حق ہورہا ہے کہ کسی بھی وقت تیسری جنگ عظیم چھڑ سکتی ہےجو انسانوں کی لاکھوں برس پرانی تہذیب اور تمدن اور زندگی کے آثار کو مٹا سکتی ہے۔تیسری جنگ کے اسی خطرے کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہےکہ یا تو انسان کو ہمیشہ کے لئے جنگ کے امکانات کو ختم کرنا ہو گا، ورنہ جنگ انسان کو ہی ختم کرکے رکھ دے گی اوراگر کچھ لوگ ایٹمی جنگ میں ہلاک ہونے سے بچ بھی جائیں تو اُ ن کی زندگی مُردوں سے بھی بدتر ہوگی۔ کیونکہ ایٹم کی تباہی کسی ملک یا قوم براعظم تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ہر انسان اور جاندار اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔موجودہ دور میں جتنی ایٹمی اسلحہ کی تیاریاں بڑھ رہی ہیں اتنا ہی ایٹمی جنگ کا خطرہ قریب ہوتا جا رہا ہے۔ ہر وقت جنگ کا خوف انسانوں سروں پر سوار ہے ،پتہ نہیں کب دنیا کی قسمت کا فیصلہ ہوجائے اور انسان کا چاند پر بسنے اور مریخ کو فتح کرنے کا خواب ادھورا ہی رہ جائے۔ بے شک جنگی طاقتوں کو ایٹمی جنگ کے نقصانات کا بخوبی اندازہ ہےاور سبھی جانتے ہیں کہ ایٹمی جنگ میں ہارنے اور جیتنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا، کیونکہ ایٹمی جنگ کا نتیجہ دیکھنے کے لئے مشکل سے ہی کوئی انسان باقی بچے گا۔ اس لئے شاید ہی کوئی ملک ایٹمی جنگ کرنے میں پہل کرنے کی ہمت نہیں کررہا ہے۔لیکن کہاوت ہے کہ جنگ میں ہر چیز ممکن ہے۔ انسان بعض حالات میں دیوانگی کے فیصلے بھی کرسکتا ہے۔ کیا پتہ جھوٹی عزت اور شان پر آنچ آتے دیکھ کر کوئی سر پھرا ملک ہائیڈروجن بم کا استعمال کرنے پر مجبور ہوجائے۔ظاہر ہے کہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ جتنا آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھا۔ اس خطرے کو جنگی تیاریوں سے نہیں بلکہ امن کی طاقت سے روکا جاسکتا ہے۔ دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے ابھی تک جو کوششیں ہوئی ہیں ان میں سے بیشتر اس وجہ سے ناکام ہوئی ہیں کہ ایک ملک کو دوسرے پر اعتبار نہیں یا ان کے اندر نفرت کی جڑیں اتنی گہری ہوچکی ہیںجو اُنہیں باہمی دوستی میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز نے امن کے لیے جو مجلس بلائی تھی وہ بالکل بے کار ثابت ہوئی۔ یواین او کی کوششیں لیگ آف نیشنز کے مقابلے میں زیادہ پُراثر تھیں۔ لیکن ابھی تک یواین او بھی امن کے لئے کوئی یقینی اور قطعی حل پیش نہیں کر سکی۔ دنیا آج بھی دو گروہوں میں بٹی ہوئی ہے روسی بلاک اور امریکی بلاک۔ جب تک دنیا کے تمام ممالک کے اندر ایکتا کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا اُس وقت تک دنیا جنگ کے خطرے میں مبتلا رہے گی۔ایسے میںدنیا میں امن قائم کرنے کے لیے کسی ایسی عالمی طاقت کی ضرورت ہے جو یواین او سے بھی زیادہ طاقتور ہو۔ جو جنگی اسلحہ رکھنے کے لیے مکمل پابندی کرا سکے، کیوں کہ جنگی اسلحہ کی تیاریاں جب تک جاری رہیں گی جنگ کا خطرہ بھی منڈلاتا رہے گا۔ ایٹمی دھماکوں پر پابندی کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا اُمیدپر قائم ہے ،اس لئے ہو سکتا ہے کہ آنے والے زمانے میں ملکی اور نسلی تعصب ختم ہوجائے اور ایک عالمی حکومت بن جائے۔ البتہ جنگ کا خطرہ مکمل طریقہ سے صرف اسی وقت ٹل سکتا ہے جب دنیا میں عالمی حکومت کا قیام ہو جائے۔ نہ معلوم کب یہ خواب حقیقت بن جائے۔

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article