! ڈونالڈ ٹرمپ کے دورِ ماضی کی کچھ یادیں

6 days ago 2

November 18, 2024

مسعود محبوب خان

ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے دوسرے صدر ہیں، جنہوں نے دو مختلف ادوار میں صدارت حاصل کی ہیں، جس سے پہلے گروور کلیولینڈ دو غیر مسلسل ادوار کے لیے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے بارے میں یہ سوالات اہم ہیں کہ ان کی خارجہ پالیسی کیسی ہوگی اور وہ کون سے نامکمل منصوبے ہیں جنہیں وہ پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہیں گے۔ ان کے پہلے دورِ حکومت کے ’’امریکہ فرسٹ‘‘ نظریے کے تحت توقع کی جاتی ہے کہ وہ چین کے خلاف سخت موقف اپنائیں گے، جس میں تجارتی پابندیاں اور اقتصادی دباؤ شامل ہو سکتا ہے، جب کہ ایران کے خلاف بھی سخت گیر پالیسی کو جاری رکھنے کا امکان ہے۔ نیٹو اور دیگر عالمی اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کی شراکت داری میں کمی اور مالی بوجھ کی منتقلی بھی ان کے ایجنڈے کا حصّہ ہو سکتی ہے تاکہ امریکہ اپنے وسائل داخلی مسائل پر مرکوز کر سکے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ اقتدار (2017ء-2021ء) نے عالم اسلام کے لیے مختلف سطحوں پر چیلنجز اور مسائل کو جنم دیا، جو مسلم ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات، مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں اور اسلاموفوبیا پر اثر انداز ہوئیں۔ ان چیلنجز کا تجزیہ کرنے سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کس طرح عالمی سیاست میں تبدیلیاں اور ٹرمپ کی پالیسیاں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے لیے مسائل کا باعث بنیں۔

ٹرمپ کا دورِ اقتدار عالم اسلام کے لیے ایک آزمائش کا دور تھا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلم ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل کو جنم دیا۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی، فلسطین کے معاملے میں امریکہ کی پالیسی، افغان جنگ اور مسلمانوں کے خلاف مائگریشن پالیسی نے مسلمانوں کے لیے عالمی سطح پر مشکلات پیدا کیں۔ ان پالیسیوں کا مجموعی اثر عالم اسلام کے لیے ایک سنگین چیلنج کے طور پر سامنے آیا، جس سے عالمی سیاست میں مسلم ممالک کی پوزیشن اور ان کے مفادات پر سنگین اثرات مرتب ہوئے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں اسلاموفوبیا کی جو لہر دیکھی گئی، اس کی جڑیں نہ صرف داخلی سیاست بلکہ عالمی سطح پر بھی نظر آئیں۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم اور ان کے دورِ حکومت میں اپنائے گئے رویے اور اقدامات نے امریکی سماج میں مسلمانوں کے خلاف عدم اعتماد اور نفرت کو بڑھاوا دیا۔ اس سلسلے میں ان کے اقدامات اور پالیسیوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو چند اہم پہلو نمایاں ہوتے ہیں:

2017ء میں صدر بننے کے فوراً بعد، ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس میں چند مسلم اکثریتی ممالک (جن میں ایران، عراق، شام، یمن، سوڈان، لیبیا اور صومالیہ شامل تھے) کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ بعد میں اس میں کچھ ترامیم کی گئیں، لیکن اس کے باوجود اسے مسلم دنیا میں اور امریکہ کے اندر ایک مسلم مخالف قدم کے طور پر دیکھا گیا۔ اس پابندی کو ’’مسلم بین ‘‘کے نام سے جانا جانے لگا اور یہ امریکہ
میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک اور عدم اعتماد کا واضح اظہار سمجھا گیا۔ یہ پابندی ٹرمپ کی اس انتخابی مہم کے وعدے کو پورا کرنے کی کوشش تھی، جس میں انہوں نے ’’مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے کو وقتی طور پر روکنے‘‘ کی بات کی تھی، تاکہ ’’دہشت گردی کے خطرے‘‘سے نمٹا جا سکے۔ لیکن حقیقت میں اس پابندی نے امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو خوف اور بے چینی میں مبتلا کر دیا اور ان کی معاشرتی زندگی پر منفی اثرات ڈالے۔ڈونالڈٹرمپ کی سیاست میں اسلاموفوبیا کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا ’’اسلامی دہشت گردی ‘‘کا ذکر کیا اور مسلمانوں کو ایک اجتماعی خطرہ کے طور پر پیش کیا۔ اس بیانیے نے اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی منفی سوچ کو فروغ دیا۔ انہوں نے مختلف تقریبات میں اسلامی شدت پسندی کے خلاف سخت موقف اپنانے کی بات کی، جس کا اثر ان کے حامیوں پر پڑا اور اسلاموفوبیا میں اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم (hate crimes) میں اضافہ دیکھا گیا۔ ’’کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز‘‘ (CAIR) کے مطابق ٹرمپ کے دور میں امریکہ میں مساجد پر حملوں، مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی تقاریر اور مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا۔

ڈونالڈٹرمپ نے میڈیا میں بھی اسلاموفوبیا کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بعض اوقات اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی بیانات دیے اور سوشل میڈیا پر ایسے بیانات شیئر کیے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک کو بڑھاوا دیتے تھے۔ اس سے امریکی عوام میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں خوف اور عدم اعتماد میں اضافہ ہوا۔ میڈیا میں مسلمانوں کی نمائندگی کو منفی رنگ دینا بھی اس بیانیے کا حصّہ تھا۔ مسلم دہشت گردی، شریعت کا خطرہ اور مسلم ممالک کو امریکہ کے لیے خطرہ قرار دینے جیسے تصورات میڈیا میں پھیلائے گئے، جن سے اسلام اور مسلمانوں کو امریکی معاشرت میں غیر محفوظ اور مشکوک دکھایا گیا۔

ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف امریکی عدالتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی ردّعمل دیا۔ عدالتوں نے کئی بار مسلم ممالک پر عائد سفری پابندیوں کو رد کیا، مگر ہر بار نئی ترامیم کے ساتھ یہ پابندی دوبارہ نافذ کی جاتی رہی۔ اس عمل نے یہ ظاہر کیا کہ امریکی عدلیہ اور سماج میں ٹرمپ کی پالیسیوں کو ہر جگہ قبول نہیں کیا گیا اور بہت سی تنظیمیں ان کی مسلم مخالف پالیسیوں کے خلاف کام کر رہی تھیں۔ اسی طرح، متعدد بین الاقوامی تنظیموں اور حقوق انسانی کے کارکنوں نے بھی ان اقدامات پر شدید تنقید کی۔ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی سطح پر بھی ان اقدامات کو مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک قرار دیا گیا اور عالمی برادری نے امریکہ کی ان پالیسیوں کو مسترد کیا۔

امریکی مسلمانوں کی زندگی پر اثرات :ٹرمپ کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی مسلمان ایک غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوئے۔ مسلم خاندانوں نے اپنے بچّوں کی تعلیم، معاشی مواقع اور سماجی تعلقات میں تبدیلیاں محسوس کیں۔ ان پالیسیوں سے امریکہ میں مقیم مسلمان کمیونٹی کی زندگیوں پر گہرے نفسیاتی اور سماجی اثرات مرتب ہوئے۔ بہت سے مسلمانوں نے مذہبی لباس جیسے حجاب پہننے سے کترانا شروع کر دیا اور اپنی شناخت کو چھپانے کی کوشش کی، تاکہ وہ کسی نفرت انگیز جرم یا امتیازی سلوک کا شکار نہ بنیں۔ یہ اقدامات مسلمانوں کو امریکی معاشرت میں غیر محفوظ اور خوف زدہ کرنے کا سبب بنے۔ مسلمانوں کو اپنے مذہبی حقوق کے استعمال میں مشکلات پیش آئیں اور مذہبی آزادی کو محدود کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطین۔اسرائیل پالیسی ان کی صدارت کے دوران مسلم دنیا کے لیے ایک اہم اور متنازع مسئلہ بن گئی۔ 2017ء میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے اور امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کے اقدام کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فیصلے کے وسیع تر اثرات ہوئے، جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا اور مسلم ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو متاثر کیا۔ٹرمپ کے دور میں سب سے بڑا اور اہم فیصلہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا تھا۔ یروشلم، مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں تینوں مذاہب کے لیے مقدس شہر ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ شہر اس لیے اہم ہے کیونکہ یہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے، جو مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ اس فیصلے نے مسلم دنیا میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی، کیونکہ اس سے فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی خودمختاری کو نظر انداز کیا گیا۔۔۔۔(جاری)
رابطہ۔09422724040
[email protected]

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article