! علم ،ٹیکناجی اورکردار ساز قیادت کی اہمیت

3 hours ago 1

September 22, 2024

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرےنے عدل و انصاف کو پس پشت ڈال کر جانبداری اور ناانصافی کو فروغ دیاتو وہ معاشرہ تباہی کا شکار ہوا۔ بے شک انصاف کا فقدان معاشرتی تفریق کو جنم دیتا ہے اور ایک ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جہاں ظلم اور فساد عام ہو جاتا ہے۔ہمارا معاشرہ بھی صحیح معنوں اُسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب اس میں عدل کا قیام ہو اور ہر فرد کے ساتھ انصاف ہو، چاہے وہ کسی بھی طبقے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔حق بات تو یہ ہے کہ ہمارے دین نے علم کو فلاح اور ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے، اس وجہ سے اسلام میں علم کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے جواس بات کی واضح دلیل ہے کہ علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے۔ علم، شعور اور دانش ہی وہ راستے ہیں جو انسان کو فلاح، ترقی اور عزت کی طرف لے جاتے ہیں۔ جب کوئی معاشرہ علم و دانش سے منہ موڑ لیتی ہے اور جہالت کے اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے تو وہ اپنی ترقی کی راہوں سے بھٹک جاتی ہے اور معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے پیچھے رہ کر دوسروں کا محتاج بن جاتی ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی معاشرہ دینی اور دُنیاوی تعلیم کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتا ہے ، تو وہ نہ صرف اپنی بنیادی ضروریات کے لیے دوسروں کے محتاج ہو جاتا ہے بلکہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر فیصلے کرنے کی صلاحیت بھی کھو دیتا ہے۔جس کے نتیجے میں پورا معاشرہ اپنی خودمختاری اور طاقت کو کھو دیتا ہے اور اُس پر استحصال اور غلامی کا سایہ چھا جاتا ہے۔اگر ہم اپنی اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیںتو یہ بات بالکل مظہر ہےکہ اسلامی تہذیب کے عروج کے دور میں مسلمان سائنس، طب، فلسفہ، ریاضی اور دیگر علوم میں دنیا کے رہنما تھے۔ لیکن جب مسلمانوں نے تعلیم اور تحقیق کو نظر انداز کیا اور جہالت کی طرف رجوع کیا تو ان کی علمی برتری ختم ہوگئی اور وہ زوال کا شکار ہو گئے۔ لہٰذا کسی قوم اور معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم و شعور کو فروغ دے اور تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائے، کیونکہ تعلیم ، شعوراور رواداری ہی وہ قوت ہے جو قوم یا معاشرے کو متحد کرنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور اُسے دنیا میں ایک مقام دلانے کا سبب بنتی ہے۔جبکہ جہالت ، فرقہ بندی اور انتشار جوکہ ہمارے دین کی روح کے بالکل خلاف ہیں کیونکہ فرقہ واریت ،عدم مساوات اور انتشار نہ صرف مسلم معاشرہ کی طاقت کو کمزور کرتی ہے بلکہ اُسے اندرونی طور پر منقسم کرکے اغیاروں کے لیے آسان شکار بنا دیتی ہے۔بغور جائزہ لیا جائےتوآج بھی جہاںامت مسلمہ کو فرقہ واریت نے جھکڑ لیا ہے وہیں ہمارے معاشرےکو بھی اس کا سامنا ہے۔ یہی داخلی انتشار مسلمانوں کو عالمی سطح پر کمزور بنا رہا ہے اور اغیار قوتیںاُن کی اس تقسیم کا فائدہ اٹھا کر اُن کے قدرتی وسائل اور سیاسی طاقت پر قابض ہو رہی ہیں۔ جبکہ حق بات یہ ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں اور ان کا اتحاد ہی ان کی بقا ء اور کامیابی کا ضامن ہے۔ ہمیں فرقہ بندی اور اختلافات کو چھوڑ کر اخوت، رواداری اور محبت کو فروغ دینا چاہئے تاکہ امت مسلمہ دوبارہ اپنے عظیم مقام کو حاصل کر سکے۔عصر حاضر میںہم جدید الیکٹرانک ذرائع سے ہم سُن رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیںکہ کس طرح مختلف قوموں اورمعاشروں کو باہمی جھگڑوں ،فرقہ بندیوں اور داخلی انتشار نے لاغر بناکر زوال پذیر کردیا ہےاور دشمن طاقتیںاُن کی کمزوریوںکا فائدہ اُٹھاکر اُن پر غلبہ پانے میں مصروفِ عمل ہیں۔کیونکہ اپنے علم وعقل ا ور شعور کی با وصف انہوں نے علم اور ٹیکنالوجی میںجو ترقی حاصل کرلی ہےاور اپنے دفاع کے لئے ایسی تیاریاں کر رکھی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہےاور اُسی کے بدولت وہ دوسروں پربالا دستی بھی قائم کرچکی ہیں۔اس لئے نہ صرف ہمیں بلکہ اُمت ِمسلمہ کو سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنا چاہئے کہ موجودہ دور میں ایک قوم یامعاشرےکو اپنےدفاع کے لئے علم، ٹیکنالوجی اور اقتصادی محاذ پرآگے بڑھنا کتنا اہم اور ضروری ہے۔ امت مسلمہ کو اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہئے کہ ہمارے لئے اولین ضرورت کردارساز قیادت کی ہے۔ کیونکہ قیادت کا کردار ہی کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی، استحکام اور زوال میں ایک اہم اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ جب قیادت صحیح راستے پر ہوتی ہے اور انصاف، امانتداری اور اخلاقی اصولوں کی پابند ہوتی ہے، تو قوم ترقی کرتی ہے اور ہر میدان می آگے بڑھ کر اپنے مقاصد حاصل کرلیتی ہے۔

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article